Site icon Daily Pakistan

غلام سے حکمران تک۔۔۔!

khalid-khan

اللہ رب العزت نے کسی چیز کو رائیگاں تخلیق نہیں کیا ہے اور پھر انسان کو تو اشرف المخلوق کا درجہ عطا کیا ہے۔انسانیت کا احترام عظےم لوگوں کا شیوہ ہے۔خاکسار کے قریب جو فرد انسانوں کا لحاظ نہیں کرتا یا انسانیت کا احترام نہیں کرتا ہے،وہ ہروقت عبادت میں محو ہو تو اس عبادت کا بھی اس کو نمایاں فائدہ نہیں ہے، جب تک وہ حقوق العباد کا خیال نہیں کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ہر انسان میں کمال پیدا کیا ہے ۔بعض لوگ اس کمال کو پہچان لیتے ہیں اور بعض لوگوں کی اداﺅں سے یہ وصف عیاں ہوجاتا ہے۔دنیا میں جتنے لوگ بھی اعلی مقام پر پہنچے ہیں، وہ اللہ رب العزت کے فضل و کرم اور کمال سے پہنچے ہیں۔اس کےلئے کوئی شعبہ مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ شخص کسی بھی میدان میں کمال کو پہنچ سکتا ہے یا پہنچ چکا ہے۔دنیا میں بعض لوگ سپاہی سے جنرل تک ، عام عہدے سے اعلیٰ عہدے تک اور بعض غلام سے حکمران تک پہنچ چکے ہیں۔ترکستان میں ایک تاجر کو ترک بچہ پسند آیا اور اس کو خرید لیا۔تاجر نے بچے سے پوچھا ، تمہاراکیا نام ہے؟لڑکے نے جواب دیا کہ اپنا نام بتاکر اپنے نام کی توہین نہیں کرنا چاہتا۔میں غلام ہوں،اس لئے جس نام سے پکاریں گے ،وہی میرانام ہوگا۔جس سے تاجر بہت متاثر ہوا ۔وہ لڑکے کو ترکستان سے نیشاپور لے آئے،جہاں اس کو قاضی فخر الدین نے خرید لیا اور اس نے اس کی اپنے بچوں کی طرح پرورش کی،اس کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا ،قرآن مجید حفظ کیا، گھڑسواری ، شمشیرزنی ، تیر اندازی سمیت مختلف فنون میں مہارت حاصل کی۔ قاضی فخر الدین کی وفات کے بعد ان کے بیٹے نے اس غلام لڑکے کو کسی تاجرکے ہاتھ فروخت کرلیا ۔ غزنی کے بادشاہ شہاب الدین غوری گھوڑوں کی دوڑکا مقابلہ دیکھ رہے تھے ۔ وہاں موجود تاجر نے بادشاہ کو بتایا کہ میرے اس غلام کو گھڑسواری میں کوئی نہیں ہراسکتا تو بادشاہ نے اس غلام سے پوچھا ،تم کتنا تیز گھوڑا دوڑاسکتے ہو؟لڑکے نے بتایا کہ حضور ! گھوڑے کو تیز دوڑانے سے زیادہ ضروری اس کواپنا مطیع بنانا ہوتا ہے۔بادشاہ شہاب الدین غوری نے پوچھا ، وہ کیسے؟وہ غلام لڑکا گھوڑے پر سوار ہوگیا اور کچھ دور چلا گیا،وہ گھوڑے کو چھوڑ کر واپس آیا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ گھوڑا واپس اسی غلام کے پاس آگیا۔ بادشاہ نے سوچا کہ جوشخص ایک جانور کو مطیع بنا سکتا تو وہ انسانوں کو بھی فرمان بردار بنا سکتا ہے۔ اس تاجرنے اپنے اس غلام کو سلطان کو بطورتحفہ دیدیا۔ وہ لڑکا دو مرتبہ فروخت ہوا اور تیسری مرتبہ اس کو تحفے میں دے دیا گیا یعنی تین مرتبہ اس کے مالک تبدیل ہوئے۔ایک اور موقع پر بادشاہ شہاب الدین غوری نے اپنے درباریوں اور غلاموں کو انعامات ، زر و جواہرات اور سونے چاندی سے مالا مال کردیا ، ان میں ایک غلام نے دربار سے باہر آکر انعام لوگوں میں تقسیم کردیا ،اس کی خبر بادشاہ تک پہنچی تو وہ ان سے بے حد متاثر ہوئے اور اس غلام کو تخت گاہ اور ایوان دربار کے اہم امور پر تعینات کردیا، بعد ازاںاس غلام نے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں سے امیر آخوریعنی شاہی اصطبل کے سردار کا عہدہ حاصل کیا۔ شہباب الدین غوری ہندوستان پر حملہ آور ہوئے تو انھوں نے دہلی اور اجمیر کو اپنی سلطنت میں شامل کیا اور افغانستان واپس جاتے ہوئے اس غلام کو اس علاقے کا نگران بنایا۔اس غلام کا نام قطب الدین ایبک تھا ۔ جب قطب الدین کوہندوستان کا سپہ سالارمقرر کیاتو غزنی میں موجودامراءنے سلطان شہاب الدین غوری کے کان بھرنے شروع کیے کہ قطب الدین کابادشاہ بننے اور بغاوت کا ارادہ ہے۔یہ خبر قطب الدین تک بھی پہنچ گئی،وہ بادشاہ کے پاس پہنچ گیا اور اس کے دشمنوں کو خبر تک نہ ہوئی ۔ بادشاہ نے قطب الدین کو تخت کے نیچے چھپا دیا اور امراءسے قطب الدین کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ باغی ہے،وہ بغاوت کرنا چاہتا ہے اور وہ بادشاہ بننا چاہتا ہے۔سلطان شہاب الدین نے قطب الدین غوری کو صدا لگائی تو قطب الدین لبیک کہتے ہوئے باہر آیا توامراءحیران ہوگئے اور وہ بادشاہ سے معافیاں اور جان بخشی کی فریاد کرنے لگے۔ بادشاہ نے ان کو آئندہ ایسی باتوں اور کرتوتوں سے اجتناب کرنے کو کہا ۔ بادشاہ شہاب الدین غوری نے قطب الدین ایبک کی شادی اپنے ایک اور غلام تاج الدین یلدوز کی بیٹی سے کرائی ۔قطب الدین ایبک نے بنارس سے لیکر بنگال تک تمام اہم شہر فتح کیے۔بنارس کی فتح پر بادشاہ شہاب الدین غوری کوایک سفید ہاتھی ملا تھا جو کہ انھوں نے قطب الدین ایبک کو دے دیا۔ وہ سفید ہاتھی ساری زندگی قطب الدین ایبک کے ساتھ رہا اور قطب الدین ایبک کی وفات کے تیسرے دن وہ ہاتھی بھی مرگیا ۔15 مارچ1206ءکو سلطان شہاب الدین غوری جہلم کے قریب گکھڑوں کے ایک حملے میں شہید ہوگئے اور ان کے بھتیجے سلطان محمودنے اقتدار سنبھالتے ہی سلطنت کے دو حصے کیے، غزنی کا علاقہ تاج الدین یلدوز کو دیا جبکہ ہندوستان کا حصہ قطب الدین ایبک کو دیا گیا۔قطب الدین ایبک نے لاہور کو دارالحکومت بنایا، بعد ازاں دہلی کو دارالخلافہ بنایا۔انھوں نے دہلی میں قطب مینار ، قوةالاسلام مسجد اور اجمیر میں ڈھائی دن کا جھونپڑا کے نام سے مسجد بنائی۔قطب الدین بہت سخی بادشاہ تھا۔ایک مرتبہ ایک غریب ان کے دربار میں آیا کہ میں نے سنا ہے کہ اگرایک لاکھ روپے کسی جگہ رکھ دئے جائیں تو اس سے سکوں کا اتنا بڑا ڈھیر لگ جاتا ہے کہ اس کے سائے میں ایک کتا بیٹھ سکتا ہے،میں نے کھبی ایک لاکھ روپے نہیں دیکھے۔قطب الدین ایبک نے فوراً حکم دیا کہ ایک لاکھ سکوں کا ڈھیر لگایا جائے، وہ غریب بہت دیر تک اس ڈھیر کو دیکھتا رہا اور پھربادشاہ کا شکریہ ادا کیا ،ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اپنے گھر چلنے لگا۔ بادشاہ نے اسے پکارکر بلایا اور کہا ، تم جا کہاں رہے ہو،اپنے پیسے تو لیتے جاﺅ اور بادشاہ نے اس غریب کو ایک لاکھ روپے عنایت کردیے۔ قطب الدین ایبک 14 نومبر1210ءمیںاپنے بہادر جنگجوﺅں اور سپہ سالاروں کے ساتھ چوگان کھیل رہے تھی کہ گھوڑے کی زین ٹوٹ گئی اور گھوڑا ہاس پر آگرا،زین کا پیش کوہہ ان کے سینے میں پیوست ہوگیا اور ساٹھ برس کی عمر میںروح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ۔ لاہور میں انارکلی سے میو ہسپتال کی جانے والی گلی ایبک روڈ پرآپ کا مقبرہ مرجع خلائق ہے ۔ 1215ءمیںسلطان شمس الدین التمش کا مقبرہ تعمیر کروایا۔مہاراجہ راجیت سنگھ نے مقبرے کوبہت نقصان پہنچایا،حتی کہ سنگ مرمر کے پلیٹیں بھی لے گیا ۔ہندوستان کے بٹوارے کے بعد حفیظ جالندھری کے مطالبے پر 1968ءمیںمقبرے کی تعمیر کاآغاز ہوا اور جولائی 1979ءمیں مکمل کرلیا گیا۔مقبرے کا گنبد بھی منفرداور خوبصورت انداز میں بنایا گیا ، مقبرہ چوکور ہے، چاروں طرف سنگ مرمر کی جالیاں ہیں اور گنبد کے وسط میں فانوس لگا ہواہے۔ اب یہ مقبرہ محکمہ آثار قدیمہ کے زیر نگرانی میںہے ۔قارئین کرام!اس سے قبل مسلمان بادشاہ ہندوستان پر حملے کرنے کے بعد واپس چلے جاتے تھے لیکن قطب الدین ایبک نے برصغیر میں باقاعدہ دارالحکومت قائم کی، اس لحاظ سے قطب الدین ایبک کو برصغیر کے پہلے مسلمان بادشاہ ہونے کااعزاز حاصل ہے اور اس کے بعد1857ءکے جنگ آزادی تک ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت رہی۔جب لاہور کے معروف بازار انار کلی جائیں تو میو ہسپتال کی طرف ایبک روڈ پرسلطان قطب الدین ایبک کے مقبرے پر جاکر فاتحہ پڑھ لیا کریںجس سے انکے درجات بلند ہونگے اور آپ کو بھی ثواب ملے گا ۔ خاکسار بھی ایک نوجوان حکمت اللہ خان زدران کے ہمراہ برصغیر کے سلطان کی قبر انور پر حاضر ہوئے اور قطب الدین ایبک کو خراج تحسین پیش کیا۔

Exit mobile version