قائد اعظمؒ ؒ کی دوراندیش نگاہوں نے سیاسی،دفاعی ،اقتصادی اور جغرافیائی حقائق کوسا منے رکھتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔مسلم کانفرنس نے بھی کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے19 جولائی 1947ءکو سردار ابراہیم خان کے گھر سرینگر میں باقاعدہ طور پر قرارداد الحاق پاکستان منظور کی۔ قائداعظمؒ ؒ فرماتے ہیں” کشمیر سیاسی اور قومی اعتبار سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔کوئی خود دار ملک اور قوم یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے حوالے کر دے“ 23 مارچ 1940کو لاہور میں قیام پاکستان کی تاریخی قرارداد منظور ہوئی او راس موقع پر سندھی، پٹھان، پنجابی، بلوچ، شیعہ، سنی اور ہر مکتبہ فکر کے ا فراد ایک مقصد کے حصول کےلئے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوئے اور اس اجلاس میں بھارت کے ایسے علاقوں سے بھی لوگ آئے جو پاکستان کا حصہ نہیں بنے۔یہ وہ جذبہ تھا جو ہمارے آباﺅاجداد نے قیام پاکستان کے وقت دکھایا اور قیام پاکستان کے مقاصد کے حصول کیلئے بھی ہمیں اسی جذبے سے کام کرنا ہو گا۔ ہمارے آباﺅ اجداد نے اپنے گھر بار اس لئے چھوڑے تھے اور جانوں کی قربانیاں دیں تھی کہ وہ ایک علیحدہ وطن میں باوقار طریقے سے نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے کہ گزشتہ 70سالو ںمیں ہم نے کہاں تک قیام پاکستان کے مقاصد حاصل کئے ہیں۔ 3 جون1947 کے تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت ریاستوں کی آزادی اور الحاق کے بارے میں جو اصول طے ہوئے تھے ان سے یہ بات واضح طور پر مترشح ہوئی ہے کہ کشمیرکو پاکستان کا حصہ بننا تھا لیکن جب کشمیریوں کو حق خود اردیت کا موقع نہیں دیا گیا تو کشمیریوں نے اولاً 19 جولائی 1947ءکو الحاق پاکستان کی قرار داد منظور کی۔ بعد میں 24 اکتوبر 1947ءکو سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تو 27اکتوبر1947ءکو ہندوستان کی افواج نے کشمیر میں مداخلت کا آغاز کیا تو قائد اعظمؒ نے فوری طور پر پاکستانی کمانڈر انچیف کو حکم دیا کہ وہ اپنی افواج کشمیر میں داخل کر دے لیکن ایسا نہ کیا گیا۔ قائداعظمؒ کے اس حکم اور کمانڈر انچیف کی طرف سے حکم عدولی کے متعدد مستند حوالے موجود ہیں۔ قائد اعظمؒؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے اپنی کتاب” مائی برادر“ میں بھی قائد اعظمؒ کی کشمیر سے وابستگی اور تشویش کے بارے میں جو اشارہ دیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائد اعظمؒؒ کشمیر کے بارے میں کس حد تک فکر مند تھے۔ آپ لکھتی ہیں کہ قائد اعظمؒ کے آخری ایام میں ان پر جب غنودگی اور نیم بے ہوشی کا دورہ پڑتا تھا تو آپ فرماتے تھے کہ کشمیر کو حق ملنا چاہیے آئین اور مہاجرین کے الفاظ استعمال کیے۔ قائد اعظمؒ محمد علی جناحؒ نے 1926ء میں کشمیر کا دورہ کیا اور وہاں کشمیری زعما سے ملاقاتیں بھی کیں۔ اسوقت اگرچہ کشمیر میں تحریک حریت کے خدوخال تو زیادہ نمایاں نہیں تھے لیکن کشمیری مسلمانوں کی حالت زار درگرگوں تھی اور انہیں ہندو¿وں کے مقابلے میں دوسرے تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا۔ قائدا عظم ؒدوسری بار1929ء تیسری بار 1936ء اور چوتھی بار1944ءمیں کشمیر گئے جہاں آپ نے نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس کے اجلاسوں سے خطاب بھی کیا اور کم و بیش ڈیڑھ ماہ کے لگ بھگ کشمیر میں قیام کیا۔ قائداعظمؒؒ 47-1946ء میں بھی کشمیر جانا چاہتے تھے لیکن مصروفیات کے باعث نہ جا سکے ۔ 1935ءمیں قائداعظمؒ ؒکے دورہ کشمیر پر ایک عظیم الشان جلسہ سرینگر پتھر مسجدمیں منعقد ہواجس میں چوہدری غلام عباس نے سپاسنامہ پڑھا۔ قائداعظمؒؒ نے اپنے خطاب میں کہا ”میں آپ پر یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ آزادی کیلئے آپ کی جدوجہد اوربرٹش انڈیا میں میرے معاملات کے ساتھ اپنی ہمدردی اور نیک خواہشات ظاہر کریں گے۔ یقینا آپ ایسا کریں گے “۔یہ وہ وقت تھا جب قائداعظمؒؒ نے ایک سال بیشتر مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی تھی اور آپ تمام برصغیر میں مسلم لیگ کی تنظیم نو میں مصروف تھے۔ دوسری طرف کانگریس مسلمانوں کو اپنے اندر ضم کرنے کیلئے کوشاں تھی۔جون 1944 میں مسلم کانفرنس کا سالانہ جلسہ قائداعظمؒؒ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ چوہدری غلام عباس کے سپاسنامے کے بعد قائداعظمؒؒ نے کشمیریوں سے خطاب فرمایا ”جب میں اس جلسے پر نگاہ ڈالتا ہوں مجھے خوشی ہوتی ہے اور یقین ہوتا ہے کہ مسلمان اب جاگ اٹھے ہیں اور وہ مسلم کانفرنس کے جھنڈے تلے کھڑے ہوگئے ہیں ۔ میں ایک مہینے سے یہاں مقیم ہوں اور اس عرصے میں میرے پاس ہر خیال کے آدمی آئے ہیں میں نے دیکھا کہ 99فیصد جو میرے پاس آئے ہیں مسلم کانفرنس کے حامی ہیں۔میں آپ کو ہدایت دیتا ہوں کہ آپ صاف صاف اور کھلے الفاظ میں اعلان کریں کہ ہم مسلمان ہیں۔ عزت کا صرف ایک راستہ ہے وہ ہے اتفاق و اتحاد ایک پرچم،ایک نصب العین، ایک پلیٹ فارم۔ اگر آپ نے یہ حاصل کیا تو آپ یقینا کامیاب ہوں گے۔ مسلم لیگ اور ہماری خدمات’ تائید و حمایت آپ کے قدموں پر ہوگی“۔1946ءمیں جب کانگریسی رہنماءجموں و کشمیر کے مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کیلئے سخت کوششیں کررہے تھے۔ قائداعظمؒؒنے ایک بار پھر جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو حالات سے آگاہ کرتے ہوئے اپنی رہنمائی عطا کی۔ قائداعظمؒؒنے فرمایا ”جموں کشمیر کے مسلمانوں سے میں اپیل کرتا ہوں کہ وہ اتحاد و یگانگت کو بہرکیف برقرار رکھیں اور چوہدری غلام عباس کی قیادت اور مسلم کانفرنس کے جھنڈے تلے جمع رہیں۔ 14اگست1947کو پاکستان تو بن گیا لیکن کشمیر لٹک گیا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قائد اعظمؒ ریاستوں کے معاملات میں مداخلت کے حامی نہیں تھے لیکن وہ ان ریاستوں کے حقوق کے داعی و علمبردار تھے۔ جب کانگریس نے یہ کہا کہ ہندوستان میں صرف دو قوتیں ہیں ایک برطانوی حکومت اور دوسری کانگریس تو اسکے جواب میں قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ نہیں ہندوستان میں چار سیاسی قوتیں ہیں انگریز، کانگریس، مسلم لیگ اور ہندوستانی ریاستیں جو571 کے لگ بھگ اور ہندوستانی آبادی کا ایک چوتھائی سے زیادہ تھی جس میں کشمیر بھی شامل تھا۔