موسیٰ بن نصیر 640ءمیں پیدا ہوئے اور 715ءمیں وفات پائی۔موسیٰ بن نصیر کا آبائی خاندان مسیح تھا۔خالد بن ولید نے جب ان کا علاقہ فتح کیا تو ان کے باپ نصیر کو گرفتار کر کے مدینہ بھیج دیاجو غلام تھا ۔ جب نصیر نے اسلام قبول کیا تو خلیفہ عبدالعزیز بن مروان نے اس کو اپنا دوست بنا لیا۔ موسیٰ بن نصیر کی تربیت بھی بادشاہی ماحول اور شاہی محل میں ہوئی۔ عبدالملک نے موسیٰ بن نصیر کو خراج وصول کرنے کےلئے بصرہ کا افسر مقرر کیا۔ ایک سازش کے تحت موسیٰ پر جلد ہی بددیانتی کا الزام لگا۔ تاہم عبدالعزیز کی سفارش پر سزا سے بچ گیا۔ عبدالعزیز نے جو، جرمانہ موسیٰ بن نصیر پر لگا اپنی جیب سے ادا کیا۔ عبدالعزیز مصر کے گورنر تھے۔ چناچہ موسیٰ بن نصیرکی دیانت کا خیال رکھتے ہوئے موسیٰ کو اپنے پاس مصر بلا لیا۔کچھ مدت بعد موسیٰ بن نصیر کو افریقہ کا گورنر بنا دیا۔ موسیٰ بن نصیر اچھے جرنیل تھے۔ بہترین منتظم تھے۔بر بر قبائل مسلسل بغا وتوں کے ہادی تھے۔ان کو کوئی بھی سنبھال نہیں سکتا تھا۔ ستمگر گورنروں کے مظالم سے تنگ ہو کر مسلمانوں سے متنفر تھے۔ موسیٰ بن نصیرجب افریقہ پہنچے تو بر بر قبائل کے ساتھ گھل مل گئے۔ انہیں یقین دلایا کہ مسلمان ہوتے ہوئے ان میں اور موسیٰ بن نصیر میں کوئی فرق نہیں۔ طارق بن زیاد جو خود بربر کمانڈر تھا موسیٰ بن نصیر سے خوش ہو گئے ۔ طارق بن زیاد جذبہ ایمانی سے سرشار تھے ۔ موسیٰ بن نصیر نے ساتھ ہزار کا لشکر دے کر طارق بن زیاد کواندلس فتح کرنے کے محاذ پر لگایا۔ کاونٹ جولین کی طرف سے اندلس پر حملہ کی دعوت ملنے پر وہ وقت آ گیا جس سے مسلمانوں کا انتظار تھا۔ راڈرک کا اپنی عوام پر ظلم واضع ہو چکا تھا۔ اس کی بدکاری بھی سامنے آ چکی تھی۔ اندلس میں دوسرے قبائل بھی مظلومیت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ بلکہ گھات قوم کے لوگ بھی مظالم سے تنگ تھے۔ امرا بھی بادشاہ بھی بادشاہ سے تنگ آئے بیٹھے تھے۔ معاشرہ ہر لحاظ سے سڑگھل چکا تھا۔ بلکہ معاشرہ ایک نئے انقلاب کی تلاش میں تھا۔ طارق بن زیاد نے ابتدائی خطاب میں مظلوموں کی حمایت میں جنگ اور خدا کا پیغام پہنچانے کے جذبات اُبھارے ۔ مجائدین سر دھڑ کی بازی لگانے کےلئے تیار ہو گئے۔ موسیٰ بن نصیر نے اس موقع پر بڑا محتاط طرز عمل اختیار کیا۔ پہلے کاونٹ جولین کا امتحان لیا کہ وہ وفادار بھی ہے کہ نہیں۔ پہلا حملہ اس سے کرایا۔ پھر طارق بن زیاد کے سات ہزار فوج کے ساتھ آگے کیا۔ پھر پانچ ہزار کمک روانہ کی ۔ جوں ہی گاڈ ایسٹ کی فتح کی اطلاع ملی موسیٰ بن نصیر خود اندلس پہنچے۔ طارق بن زیاد کے ساتھ مل کر کئی علاقے فتح کیے۔ بدقسمتی سے موسیٰ بن نصیر کا انجام بھی نیایت اندوناک ہوا۔ بنو امیہ کے خلیفہ ولید بن عبدلملک نے موت سے پہلے موسیٰ بن نصیر کو دمشق واپس آنے کے احکامات جاری کیے ۔ موسیٰ بن نصیر غنیمت اور زر جواہرات کے ساتھ پایہ تخت واپسی کےلئے روانہ ہو چکا تھا۔ ولید کے مرض الموت میں مبتلا ہونے کے بعد سلیمان بن عبدالملک کی خواہش تھی کہ موسیٰ بن نصیر کا دورا ولید کی موت کے بعد اور اس کی تخت نشینی کے وقت ہو۔ مگر موسیٰ بن نصیر اپنے محسن اور مربی کی خدمت میں جلد از جلد حاضر ہو کر تحفے اور تحائف پیش کرنا چاہتا تھا۔ لہٰذا موسیٰ بن نصیر بڑی سراحت کے کے ساتھ پایا تخت پہنچا۔ ولید کی طرف سے موسیٰ بن نصیر کی بے حد عزت افزائی کی گی۔ انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے کےلئے سلیمان بن عبدالملک نے تخت نشین ہوتے ہی موسیٰ بن نصیر کے تمام شاہی اعزازات اور مناصب سے یکسر محروم کر دیا۔ تمام جائدادیں ضبط کر لیں۔ اس کے بعد موسیٰ بن نصیر کو قید میں ڈال دیا۔ کسی صاحب اثر شخصیت کے ایما پر موسیٰ بن نصیر کو قید سے نکالا گیا۔ سلیمان نے اس پر کئی لاکھ کا جرمانہ نافذ کر دیا۔ موسیٰ بن نصیر اتنی زیادہ رقم ادا کرنے کے قابل نہیں تھا۔ کہاں افریقہ کا گورنر اور فاتح اندلس اور کہاں اب اتنی تنگ دستی کہ انسان دو لقموں کا بھی محتاج ہو۔ یہ تھی شخصی بادشاہت کی کارستانی کہ ایک بادشاہ ولید بن عبدالملک کو موسیٰ بن نصیر پسند تھا۔ مصر کے گورنر عبدالعزیز کو بھی پسند تھے۔ مگر سیلمان بن عبدالملک کو صرف اس لیے پسند نہیں تھا کہ خزانہ اس کی تخت نشینی سے پہلے کیوں دمشق لایا گیا ۔ سلیمان نے اس کے بیٹے جسے موسیٰ بن نصیر پایاہ تخت دمشق آنے پر اپنا نائب بنا کر آئے تھے کو قتل کردا دیا۔ موسیٰ بن نصیر جب جیل میں تھا اس کے بیٹے کا سر اس کے سامنے لایا گیا۔ جس پر اسی سالہ بزرگ منتظم و مشہور جرنیل کا تبصرہ صرف یہ تھا کہ سلیمان تو نے ایک ایسے جوان کو مار دیا جو رات کو اللہ کی عبادت کرتا تھا اور دن کو روزہ رکھتا تھا۔ یہ دُق موسیٰ بن نصیرنے برداشت کیا۔ لیکن پیرانہ سالی میں ایک نیک با صلاحیت بیٹے کی موت کے صدمہ پر انتقال کر گئے۔ مشہور یہ ہے کہ طارق بن زیاد نے جو موسیٰ بن نصیر کے ساتھ دمشق آئے تھے۔سبب دونوں کے درمیان اختلاف تھا۔ آخر کار ولید بن عبدالملک نے دونوں کو معزول کر دیا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ موسیٰ بن نصیر نے طارق بن زیاد کی مدد سے کامیابیاں حاصل کی تھیں۔طارق بن زیاد کو بلندیوں پر جاتے ہوئے صدمہ محسوس کرنے لگے تھے۔