آج کے دﺅ رمیں بھی کتاب پڑھنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔لوگ اب بھی کتاب کو پورے ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ہر طرح سے پڑھتے ہیں ۔خرید اور تحفتاً دونوں صورتوں میں پڑھتے ہیں۔جہاں تک بات ہے کہ لوگ مفت یا تحفتاً ملی کتابیں نہیں پڑھتے، الماری کی زینت بنادیتے جیسی باتیں فضول باتیں ہیں ۔مجھے تو یہاں یہ بھی پتہ نہیں چل رہاہے کہ مفت ملی کتابیں نہ پڑھنے کی اورمحض الماری میں سجانے کی دوسروں پر کسی پھبتی کی وجہ کیا ہے اور یہ بھی واضح نہ کہ کہنے والا یہ بات کرکے کہنا اوربتانا کیا چاہتاہے شاید کہ بتانا چاہتا ہو کہ خریدی کتابوں کی لوگ زیادہ قدرکرتے ہیں حالانکہ ایسانہیں ہے ۔جولوگ کتاب دوست ہوتے ہیں وہ ہرطرح سے دستیاب کتاب کو پڑھتے ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ کتابوں کوناحق چمٹے چند ناشروں کے لالچانہ طرز عمل اور منافع خوری کے سبب کتاب ایک عام قاری کی پہنچ سے دو رہوتی جارہی ہے مگریہ پڑھنے کا سلسلہ ازل سے ابد تک رہے گا۔رہی بات کہ مصنفین اور کتاب کی پرموشن کا کچھ ادبی لوگوں نے بیڑہ اٹھا رکھاہے۔ ان کی لکھی کتابوں کو ایوارڈ سے نوازتے ہیں۔ ایسے لوگ چند ہی ہیں جو مصنفین کیلئے تقریبا ت کا اہتمام کرتے ہیں۔ وقت دیتے ہیں۔ اپنا پیسہ خرچ کرتے ہیں ۔ایسے لوگوں کا یہ کہنا” میں نے ابھی تک کسی ایسے بندے کو نہیں دیکھا جو مصنفین سے پیسے لے کر ایوارڈ دیتا ہو“©©تو حضورِ والا یہ لوگ آپ کے ہی حلقہ احباب کے ہیں اور آپ جیسے ہی ہیں تونظر کیسے آئیں گے ؟ اسے دوسروں کی نظر سے دیکھیں گے تو ہی چانن ہوگا ، اسے بطور ناشر دیکھیں سارے پاپ مع سراب ایوارڈ ڈرامہ روزروشن کی طرح ایمان ویقین کی حد تک سامنے نظر آجائیں گے ۔رہی بات پروپیگنڈہ کی تو ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔بندہ ناچیز نے اپنے چار ایوارڈ کہانی کالمز میں اس سراب ایوارڈ کہانی کا جس ذمہ داری کے ساتھ پردہ چاک کیا ہے اس کا مکمل اور تسلی بخش جواب کیوں نہیں دیتے ہیں؟۔ کیوں صحافتی ڈنڈی ماررہے ہیں؟۔ کیا بات ہے کہ آپ کی تحریر میں پہلی چار پانچ لائنوں میں ہی ادبی لڑکھڑاہٹ واضح ہے کہ مفہوم ہی واضح نہیں ہو رہاہے کہ کہنا کیا چاہتے ہیں اور کہہ کیا رہے ہیں ۔ ذہنی مریض آپ کی ہوس و حرصانہ سوچ کا پردہ بری طرح چاک کرنے والے ہم نہیں ہیں بلکہ آپ جیسے صحافت کی آڑ میں چھپی کالی بھیڑیں اور صحافتی بدنماجونکیں ہیں کہ جو اپنی اس زمانے بھر میں مت ماری صورتحال میں حق و باطل میں انصاف اور فرق کرنے کے قابل بھی نہیں رہے ہیں۔مخبوط الحواس ،بیمار ذہنیت ،منفی سوچ و خیال کی پیداوار ، غیر تربیت یافتہ آپ جیسے قبیلے کے لوگ ہوتے ہیںراقم الحروف جیسے نہیں ۔شخصیت بات نہ کرنے کے طور طریقے میں کمی و کوتاہی خدا نے آپ کے اندر رکھی ہوگی ،میرے جیسے میں نہیں۔ خدا نے عزت ،شہرت ،دولت سب چیزوں سے نواز رکھا ہے ،حتیٰ المقدور اسی کے دئیے سے سیراب ہو رہے اور خوب ہو رہے ہیںاوراس کو گھر بیٹھے انجوائے کررہے ہیں۔ آپ کی طرح دفتروں ،ڈیروں ،تھانوں میں ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو مجھے اور اپنے آپ کوپرکھ کر دیکھ لیں ، یہ خدا کی ہی شان ہے کہ آپ کی نام نہاد شان اس وقت گھٹا رہا ہے اور بندہ ناچیز کا کم مقام اس وقت بڑھا رہا ہے ۔پھر بھی اگر کوئی شک گزرے تو مجھے بتانا کہ آپ کے ایوارڈ لینے والے ساتھی، چاہنے والوں کے آپ جیسے لوگوں کے بارے اس وقت تاثرات کیاہیں؟، سکرین شارٹ آپ کے ہی گروپ میں آپ کے سامنے رکھ دوں گا ۔قسم سے اگر شرمندگی سے تار تار نہ ہو گئے تو پھر مجھے کہنا ۔وہ وہ نظارا دیکھیں گے کہ دنگ ،دنگ اور دنگ ہی رہ جائیں گے۔ آپ اور آپ جیسے افراد کی شخصیت کیا ہے؟،آئینے کی طرح صاف و شفاف نظر آجائے گی،لکھنے سوچنے اور پرکھنے میں آپ کے فر ق ہے ۔میرا لکھا تو بڑا واضح اورصاف و شفاف ہے کہ ہر ایک کو پوری طرح سمجھ آجاتا ہے مگر آپ کا لکھا ،کہا اوربیان کیا اتنا غیر واضح، غیر مبہم ہے کہ دیکھتے سوچتے ہی ہنسی کے فوارے آجاتے ہیں۔ صحافتی جونکوں،بیمار ذہنیت افراد کی بے سرورزندگی و حال بے حال لائف سٹائل اور اس پیدا شدہ صورتحال پر بے بسی پر ترس آتا ہے ،دوست کہتے ہیں کہ پہلی بار ان کو کوئی ٹکر کا آدمی ملا ہے۔ میںایسے لوگوں کیلئے کچھ ایسا ہی ہوں۔ راقم الحروف سمجھتا ہے کہ کچھ ناسمجھ آپ کی ”مہان جادوگری“ کے طلسم کدہ میں پھنسے ہوئے ، اچھے خاصے قابل ہوتے بھی آپ جیسے جاہلوں کے ہاتھوں بے کار ہوئے پڑے ہیں۔انہیں ایوارڈ سے زیادہ اعتماد کی ضرورت ہے جو یقیناان ایوارڈ لینے والوں میں تو شاید موجود ہو ہی مگر آپ میں اس کایکسر فقدان نظر آتا ہے۔کتابوں کی لوٹ مار سیل،بیوپار کاروبار،رعائتی نرخ جھانسے کے نام پر قید ادیبوں کو رہا کردیجئے، اُڑنا ان کا حق ،یقین کریں یہ اپنی پرواز خود بخود ہی بلند و بالا کرلیں گے۔ان کوآپ جیسی مثبت سوچ کی نہیں آپ سے نجات کی ضرورت ہے۔آپ جیسے ہوس زر کے پجاری سوچ کے حامل جن کی پوری تحریر پیسہ پیسہ بولتی ہے جو رائٹرکی صحیح قدروقیمت و اہمیت و افادیت سے قطعاً ناواقف ہیں، نجانے رائٹروں کی کون سی مفلسی ،غریبی ،خراب حالت کا اظہارکررہے ہیںاور یہ سب ایک اور ساتھ ساتھ بات بھی ایک سراب ایوارڈ کہانی جیسا ہی ایک خود ساختہ دلفریب ڈرامہ ہے جسے میرے موبائل اِن بکس میں آپ کے چاہنے والوں کے پڑے ”شاندار میسجز “نے بے نقاب کردیا ہے۔یہ فلاپ ایوارڈ شو ضرور لگائیے ۔اس لالچ و شہرت کے متلاشی دﺅر میں” ایوارڈ ڈگڈگی تماشا “ضرور دکھائیے مگر انہیں جو دیکھتے ہیںہمیں نہیںکہ اہل صحافت سبھی جانتے ہیں کہ دراصل یہ کیاہے؟بقول آپ کے کہ آج کے دﺅر میں ہربندہ نفسانفسی کے عالم میں پیسہ چاہتاہے ۔ کوئی کسی پر ایک روپیہ بغیر مقصدخرچ نہیں کرتا ہے۔ حضور والا یہی بات راقم الحروف بھی کررہا ہے کہ کچھ پاپی اپنے پیٹ کے ایندھن کا دوزخ بھرنے کیلئے یہ کھیل تماشے اورسراب ڈرامے رچائے ہوئے کسی خاص مقصد، خیال او رمال کیلئے سجائے بیٹھے ہیں۔ فری والی باتیں تو صریحاًجھوٹ کہانی ہے ۔میں نے کب کہا ہے کہ سبھی پیسے لیتے ہیں ،چند ایک کی بات کی ہے ،بیشتر اچھی شہرت کی حامل تنظیمیں / سوسائٹیز/ این جی اوز تو ایسے کرتب نما جعلی تماشے دکھاتی ہی نہیں ہیں بلکہ صحافیوں کی فلاح وبہبود کیلئے جو ہو سکتا ہے کرتی ہیں ۔ آپ کیا کررہے ہیں ؟ صحافیوں کی مالی حالت خراب کاتو آپ کے کالم میں ذکر ، اب تک کس کس مصنف ،کالم نگار ،سٹوری رائٹر کی حالت بہتر بنانے میں بطورمال ،ہدیہ کیا خدمات دے چکے ہیں؟کسی ایک کانام بتانا پسند کریں گے ؟کتابیں چھاپنے ،بیچنے اور اس پرناحق ،زائدمال بنانے کے علاوہ اور آپ کی صحافتی خدمات کیا ہیں ؟؟؟کچھ بتائیں گے؟؟؟عقل و شعور سے پیدل تعفن زدہ ماحول ،بیمار ذہنیت افراد کے انبوہ میں خود کے لگائے ایوارڈ سراب ڈرامے میں خود کا پیسہ خود ہی جیسے لوگوں پر لگائے صحافت پر کون سا احسان کررہے ہیں کہ سارا ایوار ڈ شو اندھوں کی انجمن زیادہ نظر آتا ہے ۔ حقیقی اہل علم و نظر یکسر نظر انداز نظر آتے ہیں اور ہاں اتنی مہان باتیں نہ کیا کریں معاشرہ متاثر ہوتا ہے ،خطر ہ ہوتا ہے کہ کہیں صحافتی و ادبی لوگ جوش غیرت میں سوچ و بچار سے عاری نیند سے جاگ کریہ سوچنے پر مجبور نہ ہو جائیں کہ ہم کن اور کیسے لوگوں میں گھرے ہوئے ہیں۔خدارا ۔ رحم،رحم او ررحم آپ بڑے مہان ہیں جبکہ ادیب بڑے کمزور ہیں ، ہوںبھی کیوں نہ ، کہ آپ سے کتاب پبلش کے نام پر آپ سے” چھلیں “جو ”پٹوا“ رہے ہیں ۔وقت ملا تو آپ کی عنایت کردہ مفت کتابوں کا تذکرہ پھر کبھی سہی ، فی الحال ایوار ڈ کہانی پرچلتے ہیں جہاں صرف اندھیرا اندھیرا او راندھیرا ہے روشنی کہیں بھی نہیں۔