Site icon Daily Pakistan

آئی ایم ایف کابجلی بل وصولی پراصرار کیوں؟

بجلی بلوں میں ریلیف کے حوالے سے نگران حکومت کی بے بسی اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا دوٹوک جواب حیران کن نہیں- تین دن کے مسلسل اجلاس کے بعد یہ مژدہ سنایا گیا کہ اس معاملے میں آئی ایم ایف سے رجوع کیا جائے گا-وزارت توانائی نے صاف کہہ دیا کہ بجلی کے بلوں میں عوام کو ریلیف آئی ایم ایف کی منظوری کے بعد ہی دیا جاسکتا ہے جبکہ نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا ہے کہ معاشی صورت حال اندازے سے زیادہ خراب ہے’ عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتے- اگر آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد نہیں کرتے تو حالات مزید مشکل ہوسکتے ہیں-ادھر عالمی مانیٹری فنڈ نے دو ٹوک جواب دیا ہے کہ بل جتنے بھی آئیں ادائیگی کرنا پڑے گی- نگران حکومت کی بے بسی’ معاشی واقتصادی بد حالی اور آئی ایم ایف کے دوٹوک جواب کے بعد یہ بات تو طے شدہ ہے کہ سرکلر ڈیٹ ختم کرنے کے لئے سہ ماہی ایڈ جسٹمنٹ اور دیگر ٹیکسوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ طے پایا ہے اس کے تحت نہ صرف بجلی کے بلوں میں کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا جاسکتا بلکہ روپے کی قدر میں گراوٹ کے ساتھ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کے خطرات بھی منڈ لا رہے ہیں- ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں گھنٹوں کے حساب سے مسلسل کمی صورت حال کو سنگین بنا رہی ہے- گزشتہ بیس روز کے دوران ڈالر کی قدر میں15روپے کا اضافہ ہوچکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے- ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ اور روپے کی بے قدری عوام کے لئے مسائل ومشکلات کا جو نیا پہاڑ سامنے لانے والی ہے اس کو سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے جسم تھر تھرانے لگتا ہے-ڈالر کی قدر میں اضافے’ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں ریکارڈ اضافے کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا سونامی برپا ہے-ٹریڈنگ اکنامکس کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نائیجیریا اور لاﺅس کو پیچھے چھوڑ کر مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں 18 ویں نمبر پر آگیا ہے۔پاکستان ایشیا میں چھلانگ لگا کر چوتھے نمبر پر آگیا ہے جہاں مہنگائی باقی تمام ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ ایران، شام اور لبنان ایشیا کے واحد ممالک ہیں جہاں مہنگائی پاکستان سے بھی زیادہ ہے، نائجیریا اور لاﺅس میں افراط زر کی شرح بالترتیب 24.08 اور 27.8 فیصد ہے جب کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 28.3 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ کیوبا، شام، لبنان، سوڈان، گھانا اور ایتھوپیا وغیرہ جیسے ممالک عالمی سطح پر رہ گئے ہیں جہاں مہنگائی پاکستان سے بھی بدتر ہے۔ ٹریڈنگ اکنامکس کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام ممالک میں سے افغانستان میں مہنگائی کی سب سے کم شرح منفی 6.5 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے-بجلی بلوں کے خلاف ملک گیر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے کہیں بل جلائے جارہے ہیں تو کہیں گرڈ اسٹیشنوں اور بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے دفاتر کا گھیراﺅ کیا جارہا ہے – گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح تاریخی بلندی پر پہنچنے کی وجہ سے عوام کی معاشی سکت شدید متاثر ہوچکی ہے اور معاشی تنگ دستی کے تناظر میں بجلی کے مہنگے بل ادا کرنا تو کجا ان کے لئے اشیاءضروریہ کی خریداری بھی مشکل ہوچکی ہے-سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر خدا نخواستہ مظاہرین بے قابو ہوگئے تو نگران حکومت کےلئے اپنے محدود اختیارات کے ساتھ صورت حال کو معمول پر لانا مشکل ہوجائے گا-ایک بار سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوگئی تو پھر ملک کو تباہی کی دلدل سے کوئی نہیں نکال سکے گا-اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایک جانب عوام پر آئے روز گیس’ پٹرولیم مصنوعات’ بجلی’ پانی’ اناج اور دوسری اشیاءضروریہ کے نرخوں میں اضافے کے تازیانہ برسائے جارہے ہیں تو دوسری طرف ملکی وسائل پر قابض اشرافیہ کے ٹھاٹھ باٹھ میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے- ایک عام پاکستانی غریب’ سفید پوش دیہاڑی دار آٹے’ گھی’ چینی پر ٹیکس ادا کرکے ریاست پاکستان کے خزانے کو بھرنے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے ہر شے پر ٹیکس ادا کرتا ہے مگر اس کے بدلے میں وہ زندگی معاشی بد حالی کے جبر تلے سسک سسک کر گزارنے پر مجبور ہے جبکہ بااثر افراد سمیت ملکی وسائل پر قابض اشرافیہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم پر اللوں تللوں میں مصروف ہے-خوراک اور ایندھن دو ایسی چیزیں ہیں جن کی قیمتیں بڑھنے سے دنیا کی ہر شے مہنگی ہوجاتی ہے اور سامراجی نظام کے ہاتھ دنیا کے ہر امیر اور غریب کی جیبوں تک پہنچ جاتے ہیں-روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث دنیا بھر میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی سے غریبوں کے فاقوں کی نوبت آ گئی ہے۔ لیکن سرمایہ کار خوب منافع کما رہے ہیں۔ مشرقی یورپ میں جنم لینے والا یہ تنازع جنوبی ایشیا میں پاکستان کی معیشت کو بھی متاثر کر رہا ہے-پاکستان میںجو پہلے ہی فی کس آمدنی کے لحاظ سے پست ترین شرح سے دوچار ہے، حالیہ مہنگائی نے عام آدمی سے اسکی قوت خرید چھین لی ہے م آمدنی اور تنخواہ دار طبقہ کیلئے جو نصف سے زیادہ آبادی کا حامل ہے، روزمرہ اشیائے ضروریہ کا حصول مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے جبکہ غریب اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں فرق دکھائی نہیں دیتا۔ اس سارے منظر نامے میں عوام کے لئے کیا ہے یہ ایک مشکل اور تکلیف دہ سوال ہے جس کا جواب یہ ہے کہ عوام کے لئے کچھ بھی نہیں سوائے مہنگائی’ بے روز گاری اور ذلت کے-عوام پر حکمرانی کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنے لئے آمریت کا انتخاب کرتے ہیں جو ووٹ لینے کے بعد عوامی امنگوں سے مکمل طور پر لا تعلق ہوجاتے ہیں-ملکی معیشت اس لئے تباہ ہورہی ہے کہ ان میں سے کسی کے پاس بھی معاشیات کا علم یا فہم نہیں یہ فیصلہ کرتے ہیں پھر عمل درآمد کرتے ہیں بعدازں اس کا رد عمل دیکھتے ہیں تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے- پالیسیاں سب کی پے درپے فیل ہورہی ہیں اوراب حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کسی کے پاس کوئی پالیسی نہیں صرف اور صرف آئی ایم ایف کی بات تسلیم کرنی ہوتی ہے آپ کی ساری معیشت کے فیصلے آئی ایم ایف کرتا ہے حکومتیں صرف ان کے واچ مین یا منشی کا کردار ادا کر رہی ہیں-ملک میں مڈل کلاس طبقے کا خاتمہ ہوچکا ہے-ملک میں غربت کے کچلے ہوئے لوگ ہیں یا پھر امیر ترین ہیں یہ نظام اب زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا-جب بے بسی انسان کو اپنے حصار میں لے لے اور ہر طرف اندھیرا چھانے لگے’ بڑھتی مایوسی گھٹن کا سبب بن جائے تو پھر انسان کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے کے لئے دریغ نہیں کرتا -صورت حال خراب ہورہی ہے آئندہ ماہ کے بل اس کو دو آتش بنا سکتے ہیں بہتر ہوگا کہ ارباب اختیار ہوش کے ناخن لیں- آئی ایم ایف کو ایک عام پاکستانی کی قوت خرید کے بارے میں بخوبی علم ہے اس کے باوجود متبادل اقدامات کے بجائے بجلی بل ادا کرنے اور اس میں مزید اضافے کے لئے اصرار کیوں؟ اس وقت جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں ان کا کوئی لیڈر نہیں-بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ احتجاج کو انتشار اور پھر خانہ جنگی میں تبدیل کرسکتا ہے- کہیں ایس تو نہیں کہ آئی ایم ایف کے ذریعے عالمی قوتیں ہمیں اسی مقام تک پہنچانا چاہتی ہیں- ارباب اختیار’ ارباب اقتدار’ سیاست دانوں اور معاشرے کو مل کو اس پر بھی ایک بار سنجیدگی سے غور وفکر ضرور کرلینا چاہیے کیونکہ وقت کم ہے…

Exit mobile version