اب جبکہ ہندوستان جی20سربراہی اجلاس کی میزبانی میں مصروف ہے اور اس اجلاس میں روس، چین، امریکہ، انگلینڈ، ارجنٹینا، برازیل ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اندونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو،آسٹریلیا، ارجنٹینا اور جنوبی افریقہ شرکت کر رہے ہیں۔ان سب کے ساتھ اسی اجلاس میں پاکستان کے دلبر جانی ممالک سعودی عرب اور ترکی بھی شرکت کر رہے ہیں ۔ ہندوستان نے جی-20کے صدر کی حیثیت سے ملت اسلامیہ کے ممالک بنگلہ دیش ، مصر، متحدہ عرب امارات اور عمان کو بھی اجلاس میں مدعو کیا ۔دوسری طرف جب میں اپنے ملک کی طرف دیکھتا ہوں تو چپ سی لگ جاتی ہے ۔یہ پاکستان کو کیا بنا کر رکھ دیا گیا ہے کہ ہمیں ہمسایے تو درکنارامت مسلمہ بھی منہ لگانے کو تیار نہیں۔سمجھ نہیں پا رہا کہ ایک عام پاکستانی شرم کرے یا افسوس؟ عین اس وقت پاکستان اپنے ہمسایہ ملک افغانستان کی سرزمین سے بدترین جارحیت کا شکار اور ڈھیلے ڈھیلے منہ سے افغانستان سے احتجاج کرنے میں مصروف ہے ۔ پاکستان کے نہایت پرامن علاقے چترال ،دنیا بھر کے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز وادی کیلاش اور اس ریجن کو ایک نئی گوریلا جنگ کا عنوان بنانے کی تیاریاں نظر آ رہی ہیں ۔میں نے اپنے طالب علموں کو بتا رکھا ہے کہ پاکستان ایک آزاد و خودمختار ملک ہے ۔میں نے نژاد نوءکو یقین دلا رکھا ہے کہ پاکستان دنیا کی عظیم ترین فوج رکھتا ہے ۔میں اپنے اسکالرز کو فخریہ طور پر بتایا کرتا ہوں کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور ایٹمی دھماکوں والے دن کو یاد رکھنے کےلئے یوم تکبیرکا نام تجویز کرنےوالوں میں میں بھی شامل تھا۔پر ایٹمی طاقت بننے کے بعد پاکستان کے دفاع کی جو درگت بنتے دیکھ رہا ہوں ،سچ پوچھیں تو اب میں اپنے طالب علموں سے نظر نہیں ملا سکتا ، وہ نژاد نو جس کی خودی کو حد درجہ بلند کر رکھا تھا ، اب پاکستان سے باہر اپنا مستقبل تلاش کرنے پر مجبور ہے ۔ ہماری خارجہ پالیسی کا حال مفلس بستیوں کی بے بس مگر لڑاکا عورتوں جیسا ہے ،جو افغان سرزمین سے ہونے والے ہر حملے کے بعد اپنی کٹیا کے دروازے کا ٹاٹ اٹھا کر ہمسائیوں سے گلے شکوے کرنا شروع کر دیتی ہیں ۔یہ عورتیں آپس میں لڑتی اس لیے نہیں کہ اگلے روز انہوں نے آگے پیچھے بیٹھ کر ایک دوسرے کی جووئیں بھی نکالنی ہوتی ہیں۔ کوئی بھی وزارت یا عہدے دار یا بزعم خود دانشور اس امر کی عقدہ کشائی کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ؛ آخر ہم افغانوں کے سامنے اتنے بے بس کیوں ہو جاتے ہیں؟ستم ظریف کا خیال ہے کہ ہمارے بلاخیز مگر متبسم غصے اور بعد ازاں تحمل کے پیچھے ڈالر سے محبت اور رغبت بھی ہو سکتی ہے۔میں نے اس شرپسند دانشور کو سمجھایا ہے کہ اے نادان،ڈالر خوری ایک بیماری ضرور ہے لیکن پاکستان کے پانی میں ایسی کوئی تاثیر ضرور ہے کہ یہ زیادہ ڈالر کھانے والوں کو بدہضمی نہیں ہونے دیتا۔ یہاں کے ڈالر خور نہایت دین دار ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انہیں ذرا برابر بھی ندامت نہیں ہوتی۔ان کی ڈالر خواہی اور ڈالر خوری پر کوئی ملکی اور غیر ملکی قانون مزاحم نہیں ہوتا۔یہ اللہ کے چنیدہ اور برگزیدہ نفوس ہوتے ہیں۔اس لیے ایسی گفتگو زیب نہیں دیتی ۔ ہاں البتہ یہ سوال ضرور تنگ کرتا رہتا ہے کہ ؛ پاکستان کی سرزمین پر ، پاکستانی فوجی دفاعی چوکیوں پر حملہ کرنے سے پہلے، کسی سخت قسم کے تباہ کن متوقع جواب کے تصور سے افغانوں کے ہاتھ کیوں نہیں کانپتے؟افغانستان کے علاقے نورستان اور صوبے کنڑ کو حملہ آوروں کے محفوظ گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق چترال سے متصل افغانستان کے علاقوں سے مشکوک سرگرمیوں کی مسلسل اطلاعات آ رہی تھیں تو اس ضمن میں کیا حکمت عملی تیار کی گئی۔ پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان کے نہایت پرامن علاقوں میں گولیوں اور دھماکوں کی آوازیں سنی جا رہی ہیں۔ اڑتی چڑیا کے پر گننے کی اس بے خبری کا نتیجہ ہمارے جری جوانوں کی شہادت کی صورت سامنے آتا ہے۔ ملک میں دہشت گردوں کے ساتھ جنگ جاری ہے ۔ہمارے جوان اور آفیسر شہادتیں پیش کر رہے ہیں ۔ دہشتگرد افغانستان سے ٹہلتے ہوئے آتے ہیں حملہ کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں بعض اطلاعات کے مطابق وہ ٹھکانے بنا کر رہنا بھی شروع کر دیتے ہیں۔میں حیران ہوں کہ ہمارے کمانداروں کو نیند کیسے آجاتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ کوئی بھی صدر آئینی طور پر سپریم کمانڈر تو ہوتا ہے ، مگر اس کی تعلیم و تربیت دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر عمل درآمد کرنے کی نہیں ہوتی؟ اس سوال کا جواب کون دے گا کہ ؛ اپنے ہی ملک میں دہشت گردوں کے ہاتھوں جان گنوانا ہمارے سپاہیوں اور جوان افسروں کا مقدر کیوں بن گیا ہے۔اگر ہم واقعی ایک ایٹمی ملک ہیں ،اگر واقعتا غیرت و حمیت کے ذرات ابھی تک ہماری کیمیا میں باقی ہیں تو پھر ہمیں اچھے برے دہشت گردوں کی تمیز مٹا کر انہیں کچلنا ہو گا۔امور ریاست و سیاست سیاستدانوں کے سپرد کر کے سب کو اپنے کام کی طرف متوجہ رہنا ہو گا۔یاد رکھنا چاہیئے کہ؛ دہشت گردی کی جنگ دراصل گوریلا جنگ کا ہی جدید نام ہے۔امریکی تجربہ بتاتا ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی منظم فوج بھی ایسی گوریلا جنگ میں کامیاب نہیں ہو سکتی ،جس میں گوریلا جنگ لڑنے والوں کی سپلائی لائن محفوظ ، منظم اور کسی طاقتور بھروسے پر قائم ہو۔امریکہ ویت نام جیسے چھوٹے اور معصوم سے ملک سے رسوا ہو کر نکلا، روس افغانستان سے۔اب اس جنگ کو کچھ نئی تبدیلیوں اور کچھ نئی حقیقتوں کو شامل کر کے دہشت گردی کی جنگ کا نام دیا گیا ہے۔اس کا مقابلہ کرنا ایٹمی حملے کا مقابلہ کرنے سے کم پیچیدہ اور سخت عمل نہیں ہے۔کیا ہم پاکستان میں ایسا کر رہے ہیں؟ان دہشت گردوں کی سپلائی لائن کیوں منقطع نہیں کی جا سکی؟ ہمارے جوان اور جونیئر افسران کی ہر روز شہادتیں کوئی بہت اچھی علامت نہیں ہے۔مجھے وطن کی سلامتی مقصود ہے ،لیکن اس سے زیادہ مجھے اپنے ہی وطن میں اپنے فوجی جوانوں کی حفاظت بھی مطلوب ہے۔ میرا بھی دل کرتا ہے کہ تعلیم سے محبت کرنےوالا پاکستان دنیائے علم و ٹیکنالوجی میں سر بلند ہو، میرا بھی جی چاہتا ہے کہ پاکستان بھی پرامن ممالک کا باعزت اور پرامن میزبان ہو۔ دنیا ہم پر اعتبار کرے، ہم ہمہ وقت بھیک مانگنے کی بجائے ضرورت مندوں کی مدد کرنے والے بنیں ۔دنیا ہم سے کنارہ کرنے کی بجائے ہماری ہم پلہ ساتھی بنے۔ہمیں اپنے ملک کو کوئی قلعہ نہیں ، تعلیم و تحقیق کا مرکز بنانا ہے۔
آہ!وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
