نصف صدی سے کچھ اوپرپھیلی میری صحافتی زندگی بلبل ہزارداستان جیسی ہے جس میں جہاں مجھے جنگوں سے لیکر زلزلوں سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات تک میں رپورٹنگ کرنے اور بہت سے ناقابل یقین واقعات حادثات و حوادثات تک کو دیکھنے کاموقع ملاہے وہاں جرنیلوں ججز سیاستدانوں حکمرانوں ہر طبقہ علم کے باکمال لوگوں اور بڑے بڑے علم والے بیوروکریٹس کو بھی ملنے اور ان سے باتیں کرنے اور بہت کچھ سیکھنے کا بھی اعزاز حاصل ہوا ہے ۔ وقت گزرنے بلکہ بدلنے کیساتھ ساتھ ہمارے بعض قومی اداروں کے متعلق ایسی ایسی غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں کہ عام آدمی ان کے بارے میں شاید وہ تاثرات نہیں رکھتا جو کبھی ہوا کرتے تھے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان اداروں میں ان قدآور شخصیات کی بھی کمی ہو گئی ہے جو بذات خود ان اداروں کیلئے کوئی اچھی بات نہیں۔ کوئی بھی نظام حکومت ہو حکومتوں کو سیدھی راہ پر چلانے ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنے اور قانون کی حکمرانی قائم رکھنادراصل صاف شفاف سیاسی لیڈر کے علاوہ بیورو کریسی،فوج اور عدلیہ کی ہوتی ہے جو اپنی علم عقل اور تجربہ سے ایسی پالیسیاں وضع کرتے ہیں کہ جن سے قومیں ترقی کی راہ پر گامزن بھی ہوتی ہیں اور محفوظ بھی آپ ماضی پر غور کریں توآپکو بیورو کریسی میں بڑے بڑے علم عقل اور تجربہ والے آفیسر نظر آئیں گے جنکی بنائی ہوئی پالیسیوں سے ملک وقوم کو فائدہ ہوا۔یہ وہ آفیسر تھے جو ہوتے توریاست کے ملازم تھے لیکن پالیسیاں بناتے ہوئے یہ کسی بڑے سے بڑے کو غور میں لائے بغیر وسیع ترقومی مفادمیں پالیسیاں اور پراجیکٹس بناکر ملک کی ترقی وخوشخالی کا سبب بنتے تھے مجھے قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ احمدمختار کی آواز دوست اور سفرنصیب اور کرنل محمد خان۔فیض احمدفیض اور بہت سی دیگر شخصیات کو پڑھنے اورسمجھنے کا موقع ملاآپ دیکھیں کہ ستر کی دہائی تک ان لوگوں کی خدمات کو کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ نہیں کہ اب بیوروکریسی میں ایسے آفیسر موجود نہیں بالکل موجود ہیں لیکن ہمارے سیاسی آقاﺅں نے محض اپنے فائدے کےلئے بیوروکریسی میں کچھ اس طرح اپنے پنجے گاڑھے ہیں کہ بہت سے افسران کے جال میں پھنس کر بعض دفعہ اشاروں کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ روزقائداعظم ڈویژنل پبلک سکول وزیرآباد کی تقریب تقسیم انعامات میں ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ فیاضی احمدموہل کی بصیرت افروز تقریر سنتے اور پھر چائے کے کپ پر بات کرنے کا موقع ملا انکی تقریرسن کریوں محسوس ہوا کہ علم کا سمندر ٹھاٹھیں ماررہاہے بچوں کی تعلیم وتربیت سے لیکر بچوں کی نفسیات اور اساتذہ کے کردار تک اور نظام تعلیم سے لیکر اس میں تبدیلیاں لانے تک کمال کی باتیں تھیں ۔ فیاض احمد موہل سحر انگیز شخصیت کے مالک ہیں اللہ تعالیٰ جب علم وادب تقسیم کر رہے تھے تو شائد ان موہلوں کو زیادہ حصہ عطاہوگیا موہل غالباًتعداد میں کم ہیں لیکن آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو آپ شائد مجھ سے اتفاق کریں گے کہ موہل جہاں بھی ہیں بڑے علم وفضل والے لوگ ہیں قانون کی دنیا میں موہلوں کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ فیاض احمد موہل جیسے افسربلاشبہ ہمارے لئے قیمتی سرمایہ ہیں ایسے افسروں کی موجودگی اور ان کی خدادادصلاحیتوں سے استفادہ کرکے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں فیاض احمد موہل اپنے سرکاری اختیارات سے ہٹ کربھی قومی ترقی کے کام کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔وہ جھنگ میں ڈپٹی کمشنر تھے انہوں نے وہاں عوامی فلاح کا کامیاب پراجیکٹ اپنی نگرانی میں مکمل کر کے عوام کےلئے سہولتوں کا انتظام کیا جب وہ قصور میں ڈپٹی کمشنرتھے توانہوں نے پتوکی اور دیگر شہروں میں میعاری تعلیم کے لئے نئے سکولزبنا کر قومی فریضہ انجام دیکر قوم کے نونہالوں کےلئے علم کی روشنی پھیلانے میں اہم کردار اداکیا اوراب جبکہ وہ گوجرانوالہ میں ڈپٹی کمشنرہیں تو قائداعظم ڈویژنل پبلک سکول وزیرآبادکیلئے کمیشنر گو جرانوالہ ڈویژن کی اجازت اورسلیم آسی اسسٹنٹ کمشنروزیرآباد کی معاونت سے چار سوکنال سرکاری اراضی کا غیرقانونی قبضہ چھڑاکریہاں قائداعظم ڈویژنل پبلک سکول وزیرآبادکی عمارت کےلئے جگہ فراہم کرنے کا تاریخی کام انجام دیا سوچتاہوں کہ بیوروکریٹس ایک مخصوص مدت کےلئے کسی علاقے میں تعینات کئے جاتے ہیں لیکن اگر ان کے اندر ایسے فلاحی ترقیاتی کاموں کا جذبہ ہوتو اپنے دور کی یادگار قائم کر کے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یاد رکھے جاتے ہیں اگر ہردلعزیزشخصیت فاطمہ جاوید ڈار پرنسپل قائداعظم ڈویژنل پبلک سکول وزیرآباد اور ان کا سٹاف مجھے تقسیم انعامات کی اس تقریب میں مدعونہ کرتا توشایدمیں ایک خوبصورت انسان سے ملاقات اور سکول کے ہونہار ذہین محنتی اورروشن مستقبل طلباکی کارکردگی دیکھنے سے محروم رہ جاتا۔