Site icon Daily Pakistan

المیہ یہ بھی ہے

صحافت جو کبھی خدمت کا نام ہوا کرتی تھی اب ایک تجارت کا روپ دھار چکی ہے۔اب تو صحافت میں لوگ ایسے ایسے کام کرنے لگ گئے ہیں کہ جو باعث ندامت و شرمندگی اور صحافتی معیار کی دھجیاں بکھیرے ہوئے ہیں۔ روپے و پیسے کی ریل پیل اور چکا چوند میں اصل خدمت کا کام کیا؟ یکسر ہی بھول گئے ہیں۔ روپیہ و پیسہ بنانا، گلچھڑ لے اڑانا، گیتوں پر جھومنا اور گنگنانا،یہی یاد رکھ سکے ہیں۔صحافتی و ادبی حلقوں میں مرد و خواتین لکھاریوں کا جو جائز مقام و مرتبہ بنتا ہے،اس سے انحراف کرنے لگے ہیں،اپنے ساتھی ہم جولی افراد کو نوازنے لگے ہیں اور باقی افراد کو محروم کر دیاہے اور انہیں بھی بھول گئے ہیں جو ان کو بنانے والے تھے۔ وہ وہ انداز، طریقے اپنا لیے ہیںجو کسی طور بھی مناسب عمل نہ ہے۔مرد و خواتین لکھاریوں کی حق تلفی کو معمول بنا لیاہے۔ان کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا مذاق جیسا ماحول بنا لیاہے جس میں حقیقی ادب و احترام کا یکسر فقدان پایا جاتا ہے۔افسوس اس پراگندہ ماحول میں سب سے زیادہ متاثر خاتون لکھاریہ نظر آتی ہیں جو صنف نازک ہونے کے ناطے کچھ کہہ بھی نہیں پاتی ہیں اور کچھ کر بھی نہیں سکتی ہیں۔اکثر تحقیر آمیز رویے کا شکار بن جاتی ہیں۔ بات بڑی تلخ اور کڑوی ہے کہ اس ادب نے حقیقت میں ایک عورت کو دیا ہی کیا ہے کچھ بھی تو نہیں،ایک تحفظ نہیں دے سکا اور کیا دے گا۔؟ موجودہ دور میں ایک خاتون لکھاریہ کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنے آپ کو منوانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ بہت سے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں مگر شاباش اور حقیقی حوصلہ افزائی کی حقدار پھر بھی نہیں ٹھہرتی ہیں۔بات دراصل یہ ہے کہ اس ادب نے عورت کو اس کا وہ حقیقی مقام دیا ہی نہیں ہے جو اسے ملنا چاہیے۔ ہر دور میں عورت ہی پستی جا رہی ہے مرد ہمیشہ بچا رہا ہے اور ناگوار باتیں ہی کرتا نظر آیا ہے۔ عورت کے نصیب میں ہر مقام پر یہ سرد رو اور ایسی ناخوشگوار باتیں سہنا ہی لکھا ہے۔یہ ایک انتہائی تلخ حقیقت ہے جس سے انکار کسی طور ممکن نہیں ہے ۔ ہمارے اس ادب نے صحافی وادبی اقدار کی چولیںہی ہلا کے رکھ دی ہیں اور ہمیں کہیں کا نہ چھوڑاہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ہمارے ادب کا بے مغز ادیبوں،آوارہ مزاج شاعروں، نفع بخش ناشروں نے بیڑا غرق کرتے ہوئے جنازہ ہی نکال کے رکھ دیا ہے اور ایسے میں خود ساختہ کرتا دھرتا¶ں کی جانب سے خودساختہ ایوارڈ،شیلڈ میڈل،تعریفی اسنادڈرامہ، اپنے ساتھی، اپنے گاہک افراد میں ”خود میں خود ہی سما جا”کے ساتھ آﺅ آپس میں با نٹ لیں تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ اس بدترین صحافتی وادبی داستان کی طرح المیہ یہ بھی ہے کہ ہم دیکھتے جانتے بوجھتے بھی اس کے تدارک کے لیے کام نہیں کر رہے ہیں جو اچھی بات نہیں ہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ مرد لکھاریوں کی طرح خاتون لکھاریہ کو اِس صحافتی وادبی ماحول میں محفوظ اور تحفظ بھرا ماحول دیں تاکہ ان کے یہ گلے شکوے ختم ہوں کہ شعبہ صحافت و ادب میں مردحضرات کا ہمارے ساتھ رویہ اچھا نہیں ہے۔ہمیں فیلڈ میں اچھااور صاف ستھرا ماحول نہیں مل رہا ہے۔ ہماری صحافت تب تک بڑھ نہیں سکتی جب تک ہم ان عوامل پر کام نہیں کریں گے۔ ہم نعرے بہت لگاتے ہیں۔خواتین کے حقوق کی بات بہت کرتے ہیں مگر ان نعروں کو عملی جامہ کیوں نہیں اپناتے ہیں؟ہمیں ان نعروں سے نکل کر عملی تدبیر بھی اپنانا ہوں گی اور اس میں حائل وہ تمام رکاوٹیں دور کرنا ہوں گی جو اس مسئلے کا سبب بنی ہوئی ہے۔ہمیں صحافت میں نقلی جمع افراد کی جگہ اصلی علم و دانش افرادسامنے لانے ہوں گے،تبھی یہ تمام جملہ امراض کاعلاج ممکن ہوسکے گا،اس کے بغیر صحافتی و ادبی حلقوں میں بہتری کی اُمید رکھنا ایک سراب والی بات ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔بات تلخ ہے مگر ہے سوچنے کی۔

Exit mobile version