گزشتہ روز ایک فلسطینی بزرگ کی دل خراش ویڈیو نظر سے گزری جس میںو ہ اپنے پیاروں کی میتوں کے پاس کھڑے دہائی دے رہے ہیں کہ یار رسول اللہﷺ ہمیں امت نے اکیلا چھوڑ دیا۔ ہم کہاں جائیں۔ ہم اللہ سے ہی فریاد کرتے ہیں۔ ہمیں مسلم حکمرانوں نے اکیلا چھوڑ دیا۔ ہم مر رہے ہیں، زخمی ہو رہے ہیں ۔ کوئی ہمارا پرسان حال نہیں۔ یا رسول اللہ ﷺ اس امت نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اسلامی دنیا گزشتہ دو دہائیوں اور موجودہ ایک ماہ سے فلسطینیوں پہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی ٹھوس احتجاج تک نہ کر سکی؟ غزہ میں اسرائیلی وحشیانہ حملوں سے فلسطینیوں کی حالت زار دیکھ کر سوال اٹھتا ہے کیا خون مسلم خون نہیں؟ مسلمان ممالک کے رہنما دولت اقتدار کے نشے میں اس قدر چور ہیں کہ وہ اپنے ہی بھائیوں پہ ہونے والے ظلم‘ وحشت کو ڈرامہ سمجھنے لگے ہیں۔ ہمارے کلمہ گو بھائی سسک سسک کر مر رہے ہیں۔ مائیں اپنے کونپل بچوں کی لاشیں اٹھائے بین کر رہی ہیں۔ زخمی عورتیں خون میں لت پت ہیں۔مگر مسلم حکمران زبانی جمع خرچ تک محدود ہیں۔ قرآن پاک نے تو مسلمانوں کو ایک سیسہ پلائی دیوار کی مانند قرار دیا ہے اور میرے آقاﷺ نے بھی فرما دیا کہ میری ا±مت کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم اس تکلیف کے درد کو محسوس کرتا ہے۔ پھر کیا ہے کہ ہم نے فلسطین کے مسلمانوں کو اکیلا چھوڑ دیا؟ ہم نے اپنی بہنوں کو تنہا کر دیا؟ ہم نے اپنی نسل کو کٹتے رہنے‘ مرتے رہنے کیلئے دشمنان اسلام کے حوالے کر دیا؟ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اتحادامت کا تصور دیا کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہے۔ نبی پاک نے پہلے ہی اس بات کی پیشن گوئی کی تھی کہ غیر مسلمین مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں گے جیسے کہ بھوکے لوگ کھانے پر ٹوٹتے ہیں صحابہ نے پوچھا کہ کیا ہم تب قلت میں ہوں گے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تم اس وقت تعداد میں ہو گے لیکن تمہاری حالت ایسی ہوگی جیسے کہ پانی کے اوپر بلبلے۔موجودہ حالات میں دنیا میں تقریباآٹھ ارب سے زیادہ آبادیاں ہے اور اس میں مسلمان دو ارب سے زائدہیں۔ قرآن و سنت سے دوری کے باعث امت مسلمہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی ہے اوردشمن اسے آسانی سے شکار کرتا چلا جارہاہے۔غزہ میں اقوام متحدہ کے سکول پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں مزید 200 فلسطینی شہید ہوگئے۔اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی کے مطابق اسرائیلی فوج نے جبالیہ کیمپ میں اقوام متحدہ کے سکول پر فضائی حملہ کیا۔غزہ کے حکام کا کہنا ہے اقوام متحدہ کے اسکول پر اسرائیلی بمباری سے 200 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ سکول میں ہزاروں فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی بمباری سے ایک ہی خاندان کے 32 افراد شہید ہوئے، شہید ہونےوالوں میں 19 بچے شامل ہیں۔اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں الشفا ہسپتال کا گھیراو¿ اور تلاشی جاری ہے۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے بجلی بند ہونے سے 24 گھنٹے کے دوران ہسپتال میں 24 مریض انتقال کرگئے۔ الشفا اسپتال میں 11 نومبر سے اب تک بجلی بند ہونے کے باعث قبل ازوقت پیدائش والے 4 بچوں سمیت 40 مریض انتقال کرچکے ہیں ۔ اسرائیلی بمباری اور حملوں کے دوران شہدا کی مجموعی تعداد 12 ہزار سے زائد ہو چکی ہے، جن میں 5 ہزار بچے شامل ہیں، 30 ہزار سے زائد زخمی ہیں اور 18 سو بچوں سمیت تقریباً 4 ہزار فلسطینی لاپتہ ہیں، کئی کے ملبے تلے دبے ہونےکا خدشہ ہے ۔ ادھرغزہ میں مکمل کمیونیکیشن بلیک آو¿ٹ کے باعث اقوام متحدہ بھی غذا کی ترسیل سمیت اپنی دیگر امدادی سرگرمیاں روکنے پر مجبور ہو گیا۔ کمیونیکیشن بلیک آو¿ٹ میں توسیع کا مطلب غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جاری امدادی سرگرمیوں میں تعطل کی توسیع کرنا ہے۔ غزہ میں بڑے پیمانے پر بھوک و افلاس پھیلنے کا خدشہ ظاہر ہے۔اسرائیلی افواج کی جانب سے گزشتہ کئی ہفتوں سے غزہ میں بجلی، انٹرنیٹ اور ایندھن کی فراہمی کو مکمل طور پر روک لیا گیا تھا جبکہ متاثرہ فلسطینی شہریوں کیلئے انسانی بنیادوں پر آنےوالی امداد کو بھی محدود داخلے اجازت دی جاتی رہی ہے جسے ورلڈ فوڈ پروگرام اور اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کی جانب سے ناکافی قرار دیا جا چکا ہے۔ غزہ میں مکمل کمیونیکیشن بلیک آو¿ٹ کے باعث وہاں امدادی سرگرمیوں میں مصروف عالمی اداروں سمیت غزہ کے 23 لاکھ سے زائد شہری محصور ہوکر رہ گئے ہیں اور ان کا دوسری دنیا سے رابطہ مکمل طور پر کٹ چکا ہے۔غزہ پٹی میں پانی کی عدم فراہمی کے باعث لوگ گندا پانی پینے پر مجبور ہو ہیں جس کی وجہ سے وبائی امراض پھوٹنے کا بھی خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کریم خان نے بتایا ہے کہ انہیں پانچ ممالک کی طرف سے فلسطینی علاقوں کی صورت حال کی تحقیقات کے لیے درخواست موصول ہوئی ہے۔ درخواست جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش، بولیویا، کوموروس اور جبوتی کی طرف سے دی گئی ہے۔ بحیثیت مجموعی مسلم ممالک کے عوام کے دل بیت المقدس اور قبلہ اول کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ اپنے روحانی و ملکی فریضہ سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں چنانچہ آج مسئلہ فلسطین اور کشمیر کا حل امتِ مسلمہ کے اتحاد سے ج±ڑا ہے جس کیلئے بالخصوص او آئی سی اور عرب لیگ کو مل کر فوری اقدامات کرنے ہونگے کیونکہ یہ سچ ہے کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا ہے جس سے مسلمانوں کی دینی و روحانی نسبت ہے- اس لئے جب تک پوری مسلم قیادت بغیرکسی سمجھوتے یابیرونی دباو¿کے متحد ہو کرایک مربوط پالیسی اپناتے ہوئے مسئلہ فلسطین پر عملاً آواز نہیں اٹھاتی اس وقت تک فلسطین کا کوئی ممکنہ حل نظر نہیں آتا۔
٭٭٭٭٭
امت مسلمہ نے فلسطینیوں کو اکیلا چھوڑ دیا!
