اس سوال کا سادہ اور پرکار جواب یہ ہے کہ اللہ ہر انسان کی ترجیح اول ہو کیونکہ اگر آپ اپنے رب کو ترجیح اول نہیں دیتے تو پھررب کے مقابلے میں اور کون ہےجسے ترجیح اول دی جائے۔اگر آپ دنیا کی کسی چیز کو یہ مقام دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ نے خدا کے مقابلے میں مخلوق یا کم تر اور عارضی شے کو ترجیح دی ہے،جو کہ بالکل درست نہیں ہے۔یہ باتیں پروفیسر احمد رفیق اختر کی ہیں جنہیں اگر آپ نے نہیں سنا تو سن لیجئے،نہیں دیکھا تو دیکھ لیجئے،نہیں پڑھا تو پڑھ لیجئے پروفیسر صاحب بہت خوب صورت شخصیت کے مالک ہیں۔علمی وجاہت، ان کے چہرے بشرے سے ٹپکتی ہے۔ ان کی آواز کی گھن گرج کانوں میں رس گھولتی اور دلوں میں دھڑکتی محسوس ہوتی ہے۔انکے بولنے کا انداز،خوابوں سے جھنجوڑنے والا ہوتا ہے اور ان کی گفتگو محو کرنے دینے والی اوراس روحانی ترفع کا سبب بنتی ہے جو انسان کی اس دنیا کی فلاح اور اگلی دنیا کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔۔وہ زندگی کے ہر پہلو پر بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ان کے پاس علم کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔اور یہ سمندر انہیں اللہ کا ڈیٹا اکھٹا کرتے کرتے عطا ہوا ہے۔سو وہ سب سے زیادہ اپنے رب کی محبت میں بولتے ہیں۔خالق کائنات سے محبت اور اس کی حاکمیت اعلی کااظہار واقرار اور وجود باری تعالی کا احساس وادراک ان کا محبوب موضوع ہے۔ ظاہر ہے اس کائنات کا ایک ذرہ بھی اللہ تعالی کی حاکمیت اور قدرت سے باہر نہیں ہے، اس لیے وہ جہاں ذرے میں صحرا اور قطرے میں قلزم ڈھونڈنے کے عمل میں علم کے ہزاروں دریا کام میں لاتے ہیں وہاں انہیں برگزیدہ ہونے کا دعویٰ بھی نہیں ہے،حالانکہ وہ خاصان خدا میں سے ہیں اور ایک دنیا ان سے فیض رسانی کرتی اوراپنی روحانی تشنگی مٹاتی اور فکری بالیدگی میں اضافہ کرتی نظر آتی ہے۔پروفیسر احمد رفیق اختر، اللہ تعالی کو انسانی تجسس کی ترجیح اول قرار دیتے ہوئے،ہر انسان کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں کہ وہ ہر وقت اپنے رب سے جڑا رہے، اس کا ذکر اور اس کی تسبیح کرتا رہے۔انہیں علم الاسما کا ماہر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے پاس آنے والےکے نام اور شخصیت کو دیکھ کر،اس کی پوری شخصیت کا نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔میرے خیال میں یہ تجربہ علمی سے زیادہ روحانی ہے۔کیونکہ صاحب نظر کی نظر بہت گہری ہوتی یے۔وہ اپنے عقیدت مندوں کو اللہ کے ذاتی وصفاتی ناموں کی تسبیح بتاتے ہیں جس کا ورد کرنے والا،خود کواس دنیا کی ڈھیروں مشکلات سے نکلتا اور آسانیوں میں کھیلتا ہوا محسوس کرتا ہے۔اگر ایک آدمی اپنے دنیاوی مسائل کے حل کے لیے اللہ سے تعلق جوڑتا ہے اور اس کا ذکر کرتا ہے تو، اس کی اس دنیا کی مشکلات اور مسائل کا خاتمہ یقینی ہوتا ہے لیکن اگر کوئی خالص رب کی رضا کے لیے، اس کے ذکر میں شب وروز گزارے اور چلتے پھرتے اور کروٹ کروٹ مصروف رہے تواس کا انعام واکرام اور ثواب کثیر خالص رب کی مرضی پر منحصر ہو گا۔اللہ تعالی چاہے تو اسے اپنے مقربین میں شمار کر لے یا پھر دنیا و آخرت کے کسی اور انعام سے نواز دے۔ اللہ کے اسما کی تسبیح کرنا،یعنی ان کا ورد کرتے ہوئے انہیں بار بار پڑھنا،اور اپنے خالق و مالک کو پکارنا،بندے کو اپنے رب سے متعلق اور مربوط کر دیتا ہے اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ رب کا ذکر کرنا اور رب سے متعلق ہوجانا کوئی عام بات نہیں ہے بلکہ بہت خاص ہے کہ بندے کا تعلق اس ذات والا صفات سے قائم ہوجائے جو فرماتا ہے کہ تم میرا ذکر کرو تو میں تمہارا ذکر کروں گااور صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ حضرت ابوہریر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوں جہاں بھی وہ مجھے یاد کرے۔ اللہ کی قسم! یقینا اللہ اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو جنگل میں اپنی گم شدہ چیز پالیتا ہے۔ جو ایک بالشت میرے قریب آتا ہے میں ایک ہاتھ اس کے قریب آتا ہوں،اورجو ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کے قریب آتا ہوں، اور جب وہ میری طرف چلتا ہوا آتا ہے میں اس کی طرف دوڑتا ہوا آتا ہوں پرفیسراحمد رفیق اختر کے نزدیک تسبیح مہندی یا سبز چائے کی طرح ہے جو ہولے ہولے رنگ چھوڑتی ہےاس لیے تسبیح میں ناغہ نہیں ہوناچاہیے اور تسبیح اپنے تسلسل سے،جب رنگ چھوڑتی ہے تو ذاکر کا ظاہر اور باطن مہکتا ہے،رستے ہموار ہوتے ہیں،زندگی آسان ہوتی ہے اورجسم وجاں کے گلعذاروں میں حسن حقیقی کے نورانی پھولوں کی مہک سے سکون وسکوت کے گہرے رنگ نکھرتے اور بکھرتے دکھائی دیتے ہیں ۔بندہ اللہ اللہ کرتا ہواحقیقت میں اللہ والا ہو جاتا ہے۔ اپنی علمی وسعت نظری کے سبب پروفیسر صاحب نے اللہ کو پانے کے لیے جو دلائل کا طریق کار وضع کیا ہے، وہ انسانی ذہن کو قائل کرنے والا اور بہت ہی پراثر ہے اور آج تک اس کا کوئی رد پیش کر سکا ہے نہ ہی اس کا توڑ کسی مثال سے ممکن ہے۔ وہ دعوی کرتے ہیں کہ اللہ کی ذات ہماری ترجیح اول ہو Allah is the Top Priority جو شخص بھی اپنی زندگی میں اللہ کو اپنی ترجیح اول قرار دیتا ہے تو اپنی تمام عبادات،ذکر اذکار،تسبیحات اور،وظائف کی وجہ سے، اس کا تعلق اس ذات یکتا سے قائم ہو جاتا ہے اور تسبیحات کی کثرت کے ساتھ اللہ سے تعلق کا ڈیٹا،مضبوط سے مضبوط تر اور بڑا ہوتاچلا جاتا ہے۔اس ڈیٹا کو بڑا اور مضبوط بنانے میں سب سے اہم کتاب قران مجید ہے جس کے لفظ، لفظ میں یہ دعویٰ موجود ہے کہ وہ اللہ کا کلام ہے، جو حیرت انگیز ہے اورایسی غیر مرئی قوت کا حامل ہے کہ زمین و آسمان اس کا ادراک نہیں کر سکتےاور جو اس حقیقت کاعملی ترجمان ہے کہ جیسے خدا عیوب سے پاک ہے،بالکل اسی طرح اس کا کلام بھی ہر طرح کے نقص سے مبرا ومنزہ ہے۔ پروفیسر صاحب کے نزدیک جو لوگ خدا کو نہیں مانتے،اور مذہب کے بھی قائل نہیں ہیں،خدا اور مذہب ان کی آزادی کا سب سے بڑا حریف ہے۔وہ اسی آزادی کو اپنی آسانی سمجھتے ہیں لیکن ان سے یہ سوال حل نہیں ہوتا کہ خدا ہے یا نہیں ہے۔میرے خیال میں یورپ چونکہ اس مشکل میں پڑنا نہیں چاہتا، اس لیے،آدھا یورپ اسے نہ مان کر آزادی اور آسانی اختیار کئے ہوئے ہے اور آدھا،مذہب کو بھی انفرادی اور ذاتی حیثیت دے کر،اس مشکل کو آسان کئے ہوئے ہے لیکن ہم نہ تو ان جیسے ہیں نہ ہی ویسا سوچتے ہیں۔ میرے خیال میں اگر اہل یورپ بھی اللہ کو اپنے تجسس کی ترجیح اول قرار دیں تو وہ ایک دن ضرور اس حقیقت تک پہنچ جائیں کہ اللہ ہی واحد و لاشریک ہے۔اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ کا ذکر دلوں کو اطمینان بخشنے والا ہوتا ہے اس لیے پروفیسر صاحب اپنی گفتگو سب سے بہتر، اللہ کی یاد میں اور اس کے ذکر میں گزرنے والے وقت کو سمجھتے ہیں۔