Site icon Daily Pakistan

انفرادی تبدیلی کی ضرورت

ہم مختلف ممالک سے پانچ دن کےلئے ایڈمونٹ آئے تھے۔جہاں ہم ایڈمونٹ کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوئے تووہاں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال بھی ہوا۔ جب مختلف ممالک کے افراد سے ملاقات ہوتی ہے تو مختلف خیالات یکجا ہوجاتے ہیں اوربہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے ۔ برطانیہ سے آئے ایک بزرگ سے گپ شپ ہوئی ،متحرک ، چست اور دور اندیش سب اوصاف کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے مختلف ممالک کا وزٹ کرچکاہے اور اس نے مختلف ممالک کے لوگوں کے عادات وخصائل کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے ۔وہ مختلف ممالک کے لوگوں، تہذیب وتمدن ، ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کے بارے میں بھی جانکاری رکھتا تھا ، انھوں نے اپنے مشاہدات کے تناظرمیں بتایا کہ ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک میں فرق صرف سوچ اور عمل کا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اجتماعی اور غریب ممالک کے افراد انفرادی سوچ اور عمل کوترجیح دیتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک کے چار پانچ افراد مل کر کام کریں گے جبکہ غریب ممالک کے چار پانچ افراد مل کرکام کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچیں گے ۔ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ آئیڈیازشیئر کرتے ہیں جبکہ تیسری دنیا کے لوگ چیزیں چھپاتے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ قانون پر عمل کرتے ہیں جبکہ پسماندہ ممالک میں قانون صرف غریبوں اور کمزوروں کےلئے ہوتاہے۔دنیا کے بعض ممالک میں قدرتی وسائل محدود ہیں لیکن اپنی سوچ اور عمل کے ذریعے انھوں نے بہت ترقی کی ہے۔انھوں نے پاکستان اور بھارت کے بارے میں بھی بڑی دلچسپ گفتگو کی۔ پاکستان اور بھارت کے زیادہ تر افراد مقامی ہیں، بہت کم تعداد میں باہر سے لوگ آئے ہیں، مقامی لوگوں میں فرق صرف یہ ہے کہ بعض لوگوں نے مذہب تبدیل کیا ہے ۔اس خطے کے لوگ باہر سے آنے والے کو خوش آمدید کہتے ہیں لیکن آپس میں دست وگریباں رہتے ہیں۔باہر سے آئے حملہ آوروں نے ان پر صدیوں حکومتیں کیں اور برطانیہ کے چند ہزارانگریزوں نے ان پر نوے سال حکومت کی ۔برطانیہ نے جاتے ہوئے جن مسائل کو چھوڑا تھا، یہ75سالوں میں وہ حل نہ کرسکے۔ پاکستان اور بھارت قدرتی وسائل اور معدنی دولت سے مالامال ہیں لیکن دونوں ممالک کے لوگ اکیسویں صدی میں بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔ لاہور اور دہلی وغیرہ آلودہ ترین شہر ہیں۔ان شہروں کو کس نے آلودہ کیا ہے؟ امریکہ ، برطانیہ ، فرانس وغیرہ نے آلودہ نہیں کیا ہے بلکہ ان شہروں کے باسیوں نے ان کو آلودہ کیا ہے۔کچھ معاملات حکمرانوں کے ہیں لیکن عام لوگوں کا رویہ اور طریقہ کار بھی خوش آئند نہیں ہے۔ وہاں کے لوگ عموماًگلی ، سڑک یاپارک میں کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں، وہ کوڑا کرکٹ ڈسٹ بن میں نہیں ڈالتے ہیں۔ گلیوں ، سڑکوں اور مارکیٹوں میں شڑپ تھوکتے ہیں ۔ گھروں کا پانی اسٹریٹس میں چھوڑتے ہیں، گھروں کو صاف کرتے ہیں لیکن گلیوں کو گندہ کرتے ہیں۔ گاڑیوں اور موٹرسائیکلوںکا ہارن زور زور سے بجاتے ہیں، حتیٰ کہ رہائشی علاقوں میں شوروغل ہوتا ہے جس سے صوتی آلودگی پھیلتی ہے ،اس سے لوگ ذہنی ، اعصابی اور دیگر امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔آپ کے ملک میں خالص خوراک محال ہے، دودھ ، سبزی، گوشت سمیت ہر چیز میں ملاوٹ کرتے ہیں ،اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ خالص اور ملاوٹ سے پاک خوراک کےلئے عوام کے ٹیکسوں سے محکمہ بھی قائم کیا ہے لیکن آپ کو ہر جگہ ملاوٹ شدہ اشیاءملیں گی۔آپ کے تعلیمی نظام میں رٹا سسٹم ہے،تخلیقی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ کے جوان ڈگریاں لیے نوکری کی تلاش میں دربدر پھیرتے ہیں اور ڈگری کے حصول کے بعد بھی بے روزگار ہوتے ہیں۔ ان میں خود کمانے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ہے۔ ملازمت مل جائے تو پھر کام نہیں کرتے ہیں۔میری بات پر یقین نہ آئے تو ورکنگ ڈے میں لاہور یا کسی اور شہر میں صبح صبح آٹھ نو بجے کسی بھی دفتر میں جائیں تو وہاں آپ کو اس دفتر کا سربراہ نہیں ملے گا بلکہ وہ اپنی مرضی سے دفتر آئے گا۔جب ہیڈ موجود نہ ہو تو باقی عملے نے کیا کام کرنا ہے؟آپ کہتے ہیں کہ ہم کام بھی نہ کریں لیکن ترقی اور خوشحالی کے ثمرات سے مستفید ہوں۔پسماندہ ممالک کے افراد ترقی یافتہ ممالک کے دوسرے درجے کے شہری بننے کےلئے آمادہ ہوتے ہیں لیکن اپنے ملک کے حالات بہتر کرنے کےلئے کوشش نہیں کرتے ہیں۔پسماندہ ممالک کے لوگ زیادہ مذہبی ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے حقوق کا کم خیال رکھتے ہیں ۔آپ کے پاکستان کے لوگ زیادہ تر مسلمان ہیں لیکن وہ اسلام پر کتنا عمل کرتے ہیں؟کیا اسلام میں جھوٹ ، فریب ، دھوکہ ، فراڈ، ملاوٹ، چوری ،قتل ،بے انصافی وغیرہ منع نہیں ہیں؟کسی مذہب کا صرف نام کا پیروکار ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس مذہب کی ہدایات اور قوانین پر من وعن عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔انفرادی اورچھوٹے چھوٹے کاموں سے بھی اپنی زندگی میں خوشگوار تبدیلی لاسکتے ہو۔ گلی، سڑک ، مارکیٹ یا پارک میں گند نہ پھینکیں ،اپنے گھر کے ساتھ گلی کو صاف رکھیں ، اس سے آپ کے دیہات اور شہر صاف ہوجائیں گے اور آپ صحت مند رہیں گے۔ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے ہارن بجانا بند کریں، شور وغل نہ کریں،اس سے ذہنی، اعصابی اور دیگر امراض سے محفوظ ہوجائیں گے۔ اجتماعی مفاد کےلئے سوچیں اور کام کریں۔ مسکرانا سیکھیں خوش اخلاق بنیں ۔کیا یہ کوئی مشکل کام ہیں جو پسماندہ ممالک کے لوگ نہیں کرتے ہیں؟ میں دوبارہ بتاتا ہوںکہ ترقی یافتہ ممالک اور پسماندہ ممالک کے لوگوں میں سوچ اور عمل کا فرق ہے بس، اس لئے سوچ میں مثبت تبدیلی لائیں اور عمل کریں۔

Exit mobile version