تحریر: عرفان صدیقی
13 جنوری کی شام تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے ترکش نے زہر میں بجھا ایک اور تیر چلایا۔ ان کے، نیلے نشان والے باضابطہ ‘ایکس ‘اکانٹ سے ایک طویل پیغام جاری ہوا۔ اس پیغام میں ایک بار پھر آرمی چیف سید عاصم منیر کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک بار پھر حمود الرحمن رپورٹ کی ورق گردانی کی گئی۔ ایک بار پھر یحیٰ خان اور مجیب الرحمن کی یادیں تازہ کی گئیں۔ ایک بار پھر قاضی فائز عیسی پر سنگ باری کی گئی۔ ایک بار پھر” میرے پاکستانیوں ”کو انقلاب بپا کرنے کے لئے سڑکوں پر آنے کے لئے اکسایا گیا۔ اڑھائی ماہ قبل ، جون کے پہلے ہفتے میں بھی ایک ایسا ہی حشر بداماں ٹویٹ خان صاحب کے آفشل مصدقہ اکانٹ سے آیا تھا۔ اس میں بھی آرمی چیف سید عاصم منیر اور یحی خان کی تصاویر پہلو بہ پہلو سجاتے ہوئے باور کرایا گیا تھا کہ آج کے حالات بھی سقوط ڈھاکہ جیسے ہیں اور فرد واحد ملک کی تقدیر سے کھیل رہا ہے۔ تب خاصا شور مچا تھا اور ہیں۔ ٹی۔ آئی کو مدافعانہ پالیسی اختیار کرنا پڑی تھی۔ خان صاحب کے قریبی ساتھیوں نے رنگا رنگ وضاحتیں پیش کیں۔ رف حسن نے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اطلاع دی کہ ہمارا اکا نٹ تو امریکہ سے ہینڈل ہوتا ہے۔ علی محمد خان نے وعدہ کیا کہ آئیند و خان صاحب کی اجازت کے بغیر ان کے اکائونٹ سے کوئی بیان جاری نہیں ہوگا۔ خان صاحب نے اس وقت بھی واضح تردید یا تصدیق کے بجا۔ عملی اختیار کی تھی۔ عوام کو گھروں سے نکلنے اور انقلاب بپا کرنے کی تلقین کرنیوالے بانی تحریک انصاف کے اپنے پیکر خاکی میں اتنی جان نہیں کہ وہ اپنا سینہ تھپتھپا ہوئے کہیں
"ہاں یہ میرا ٹویٹ ہے۔”
ٹی آئی کے فدائین کا نعرہ ہے عمران نہیں تو پاکستان نہیں۔ اور جنوں واقعات ایسے ہیں جن سے تصدیق ہوتی ہے کہ خود عمران خان بھی اسی فلسفہ سیاست کو اپنی سیاسی حکمت عملی کا جزو اعظم خیال کرتے ہیں ۔ ان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے کی الف لیلہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے ان کی حجلہ اقتدار سے رخصتی کے بعد کی کہانی بھی کچھ کم ہیجان خیز نہیں۔ عمران خان ہماری تاریخ کے پہلے اور آخری وزیراعظم ہیں جنہیں ایوان نے اپنے دونوں کے بل پر ایک شفاف آئینی مشق کے ذریعے گھر کا راستہ دکھایا۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان تو محمل ہو گئے ۔ خواجہ ناظم الدین سے شہباز شریف تک کوئی ہے میری حالات کی تاب نہ لاکر مستعفی ہو گیا۔ کسی کا سر 58 (2-8) کی شمشیر سے قلم کر دیا گیا، کوئی بے مہار چوں کے قبر کا نشانہ بن گیا اور کو کسی ایک کے خلاف بھی ایوان نے عدم اعتماد نہیں کیا۔ آئی آئی چندریگر کے خلاف اسمبلی میں بغاوت کے آثار بھرے اور قرارداد عدم اعتماد نے انگڑائی لی تو وہ صرف 55 ون کی وزارت عظمی کے بعد خودی است علمی دے کر گھر چلے گئے۔ اپنی پیشانی کو داغ ندامت سے بچالیا۔
محرکات ، اسباب اور وجوہات سے قطع نظر لوح تاریخ پر لکھی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ اس ایوان نے عمران خان پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا جس نے انہیں اعتماد کی سند دی تھی۔ قصہ تمام ہوا۔ خان صاحب نے اس عمومی جمہوری روایت کو ساتھہ سمجھ کر جان کا روگ بنالیا۔ ایوان ہی کو نہیں پاکستان کو بھی کو سنے دینے لگے۔ عدم اعتماد کی چاپ سنتے ہی انہوں نے سائل سے کھیلنے کا سرکس سجایا۔ امریکہ اور فونی سازش کا الزام لگایا۔ ہماری سفارت کاروں کی راہ میں اسی طرح کے کا متے ہوئے جس طرح کے کانے ان کے وزیر سرور خان نے پی آئی اے کی راہ میں ہوئے ۔ سید عاصم منیر کی تقرری روکنے کے لئے ایسا سرکس لگا یا جس کی مثال پاکستان تو کیا دنیا کی تاریخ میں بھی نہیں ملتی ۔ اگلا مشن یہ ٹھہرا کہ آئی۔ ایم۔ ایک پاکستان کو قرض نہ دے۔ پاکستان کے لوگ افلاس کا شکار ہو کر ان کے عہد زریں کی یاد میں آہیں بھر نے لگیں۔ اپنے سابق وزیر خزانہ اور سینیٹر شوکت ترین کے ذریعے خیبر پختون خوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو حکم دیا کہ وہ آئی۔ ایم ۔ ایف کو خط لکھ کر خبر دار کریں کہ پاکستان کی مدد نہ کی جائے۔ پھر خود آئی۔ ایم۔ ایک کو تنبیہ آمیز محط لکھا کہ پاکستان چونکہ انسانی حقوق پامال کر رہا ہے اس لئے اسے ہرگز مدد نہ دی جائے۔ مزید دبا بڑھانے کے لئے اپنے فدائین کے ذریعے آئی ۔ ایم ۔ ایک ہیڈ کوارٹرز کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ڈالرز سے خریدی گئی لا جنگ فرمز کے ذریعے امریکی کانگریس سے پاکستان مخالف قرار داد منظور کرائی۔ غیر ملکی سفارت خانوں میں وفود بھیج کر انہیں باور کرایا کہ پاکستان کی صورت حال تو بھارتی مقبوضہ کشمیر اور غزہ سے بھی بدتر ہے۔ ذلفی بخاری کے ذریعے برطانوی ہاس آف لارڈز سے پاکستان مخالف بیانات جاری کرائے۔ اپنے ہمدم دمیر بینداز مے خلیل زاد کو عالمی سطح پرفون اور ریاست کے خلاف زہر افشانی پیا بھارا۔ اس ساری تگ و دو میں ان کا مقصد ذاتی سیاسی اہداف اور نشانہ پاکستان رہا۔
9 مئی، اشتعال اور ملک دشمنی کا نقطہ عروج تھا۔ یہ سادہ ترین الفاظ میں ایک باغیانہ سازش تھی۔ اس کی پہلی کڑی پر کامیابی سے عمل ہو گیا۔ اگلے دو مراحل فوجی قیادت کی دانشمندی اور بروقت اقدام کے باعث نا کام ہو گئے ۔ دنیا کے کسی حصے میں ریاست پر ایسا کھلا حملہ ہوا ہوتا تو اس کے کردار اپنے انجام کو پہنچ چکے ہوتے لیکن ہمارے ہاں جزا و سزا کے معیار انوکھے ہیں۔ عدالت، آرمی ایکٹ کے تقاضوں کے سامنے دیوار کھڑی کر کے آسودہ ہو گئی۔ اکتوبر میں اس عبوری فیصلے کو ایک سال ہو جائے گا۔ یہ ہے وہ ماحول جس کے سبب عمران خان بجا طور پر سمجھنے لگے ہیں کہ وہ کچھ بھی کہیں، کچھ بھی کریں، کچھ بھی لکھیے ریں ، کوئی ان سے باز پرس نہیں کر سکتا۔ پاکستان کے طول و عرض پر محیط آئین ، ان کی دیوتائی شخصیت کی شق ان پر لاگو نہیں ہوتی، تعزیرات پاکستان کا کوئی ضابطہ انہیں میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ آئین وقانون کی بے چارگی ، ریاست کی ہے حکمتی اور عدلیہ کی معشوقانہ فراغ قلبی نے انہیں یہ باور کرا دیا ہے کہ وہ کوئی بھی عزم کر لیں ان پر دائمی استنی کی چادر تنی ہے۔ تازہ ترین ٹوئٹر پیغام 9 مئی کا پرنٹ ایڈیشن ہے۔ اس کے ایکت نامہ ہے۔ تصور کیجئے کہ اگر یہی باغیانہ بیان کسی اور چھوٹی یا بڑیتو ہر سو گردش کرنے والا ایک محط دکھانے پر ایک لفظ سے آگ کے شعلے ایک جماعت کے کسی راہنما کی طرف سے آتا تو الہ ذاری، سازش اور بغاوت کے الزام میں 23 سال قید کی سزا سنادی گئی تھی۔
ڈرا در کے ماضی کو جانے دیجئے، گذشتہ دو برس میں، سائلر سے ٹوئٹر تک ایک مخصوص ریاست مخالف اور بڑی حد تک ملک دشمن رویہ خان صاحب کے کردار و عمل پر حاوی ے وہ سیاست قرار دیتے ہیں ۔ یہی اوصاف ان کی جماعت کے رگ وریشہ میں بھی سما سکتے ہیں۔ حصول اقتدار کے غیر جمہوری حربوں، عبد اقتدار کے فسطائی کارناموں اور بعد از اقتدار کے دوطن دشمن رویوں کو سمیٹ کر اگر لو دریافت شدہ مصنوعی ذہانت (AI) کو کوئی چہرہ تراشنے یا نام دینے کے لئے کیا جائے تو وہ دو سیکنڈ میں بڑا واضح جواب دے دی گی۔ پھر یہ بھی پوچھیے کہ ایسے رویوں کے ملغوبے کو کیا نام دیں گے؟ تو وہ کچھ بھی کہہ لے گی ، جمہوری سیاست کا نام نہیں دے گی۔