Site icon Daily Pakistan

حضرت کعب بن مالک ؓ کی توبہ

riaz chu

غزوہءتبوک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا آخری معرکہ تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنفسِ نفیس شرکت فرمائی۔ آپ بعض جنگی حکمتِ عملیوں اور مصلحتوں کے پیش نظر کسی غزوہ پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے عزائم عام لوگوں سے خفیہ رکھا کرتے تھے لیکن غزوہ تبوک ایسا پہلا موقع تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلانیہ طور پر مسلمانوں کو بھرپور جنگی تیاریوں کا حکم دیا حتی کہ نو مسلموں کے لئے بھی اس مہم میں حصہ لینا لازمی قرار دے دیا۔جب جہاد کے لئے لشکرِ اسلام کی تیاری کا اعلانِ عام ہوا۔ ا±ن دنوں جزیرہ نمائے عرب شدید گرمی کی لپیٹ میں آیا ہوا تھا۔ فصلِ خرما پک چکی تھی، تمازتِ آفتاب کا وہ عالم تھا کہ ہر ذی روح کو سائے کی تلاش تھی۔ اس سے قبل کافی عرصے سے قحط سالی کے باعث مسلمان انتہائی عسرت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ باربرداری اور سواری کے جانوروں کی شدید قلت تھی، سفر طویل تھا اور وسائل کا فقدان ایک پریشان کن مسئلہ تھا۔ اس پر مستزاد اسلام دشمن منافقین نے اس نازک صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لئے لشکرِ اسلام میں وسوسے اور پھوٹ ڈالنے کی کوششیں تیز کر دی تھیں۔ کبھی وہ مسلمانوں کو موسم کی شدت سے ڈراتے، کبھی بے آب و گیاہ صحرائی سفر کی صعوبتوں کا ذکر کر کے ان کے پائے استقلال کو ڈگمگانے کی سعی کرتے اور کبھی رومیوں کی فوجی قوت کو بڑھا چڑھا کر ا±ن کے حربی اسلحہ اور ساز و سامان سے مسلمانوں کے حوصلے (morale) پست کرنے کا جتن کرتے، الغرض مختلف نفسیاتی حربے بروئے کار لائے جا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں ہر پیر و جوان سر پر کفن باندھ کر تبوک کے طویل سفر پر روانہ ہو گیا۔ لیکن تین مخلص صحابہ کرام رضی اللہ عنھم محض سستی اور غفلت کی وجہ سے پیچھے رہ گئے۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے دوسرے دو ساتھی جو غزوہء تبوک میں اسلامی لشکر کے ساتھ نہ جا سکے حضرت مرارہ بن الربیع اور حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہما تھے۔حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تبوک سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واپسی کی خبر ملی تو ندامت و شرمندگی کے مارے ہم میں سے ہر ایک کو یہی خیال ہر وقت دامن گیر رہنے لگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے۔پھریہ فیصلہ کرلیا کہ نتائج خواہ کچھ بھی ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سچ کے سوا کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دلوں کے پوشیدہ اَحوال نورِ نبوت سے جان لیتے ہیں، ان سے کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : تمہیں کس بات نے پیچھے رکھا، کیا تم نے سواری نہیں خریدی تھی؟ عرض کیا : یا رسول اللہ! اگر میرا معاملہ کسی دنیا دار سے ہوتا تو میں بھی کوئی بہانہ بنا کر چھوٹ جاتا لیکن میرا معاملہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہے لہٰذا سچ سچ بیان کروں گا۔ آقا! سچی بات یہ ہے کہ میں آسودہ حال تھا کوئی عذر اور بہانہ نہیں بس غفلت کا شکار ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے سچ کہا، اس لئے اب انتظار کر یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں کوئی فیصلہ کر دے۔یہ تینوں مخلصین کڑی آزمائش میں ڈالے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ا±ن کے سماجی مقاطعہ (social boycott) کا حکم صادر فرمایا تو نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ لوگوں نے ان سے بات چیت تک کرنا چھوڑ دی۔ جب اس سوشل بائیکاٹ کے پہاڑ جیسے چالیس دن گزر گئے تو بارگاہِ نبوی سے حکم صادر ہوا کہ اپنی بیویوں سے بھی علیٰحدہ ہوجاو¿۔ یہ بڑا نازک مرحلہ تھا۔ جذباتی سطح پر ایک طوفان کھڑا ہوسکتا تھا لیکن ایک لمحہ کا توقف کئے بغیر حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ اسی کشمکش میں پچاس دن گزر گئے۔ان مخلص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آزمائش کا مرحلہ پچاس دنوں کے بعد مکمل ہوا، اللہ رب العزت نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور اس کا اعلان بذریعہ وحی فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بشارت دی اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم انہیں مبارک باد دینے کے لیے ان کے گرد جمع ہوگئے کہ وہ ہر کڑے امتحان میں سرخرو نکلے تھے۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں اِرشاد فرمایا :”یقینا اللہ نے نبی (معظم) پر رحمت سے توجہ فرمائی اور ان مہاجرین اور انصار پر (بھی) جنہوں نے (غزوہ تبوک کی) مشکل گھڑی میں (بھی) آپ کی پیروی کی اس (صورت حال) کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل پھر جاتے، پھر وہ ان پر لطف و رحمت سے متوجہ ہوا، بیشک وہ ان پر نہایت شفیق، نہایت مہربان ہےo اور ان تین شخصوں پر (بھی نظر رحمت فرما دی) جن (کے فیصلہ) کو مو¿خر کیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین باوجود کشادگی کے ان پر تنگ ہوگئی اور (خود) ان کی جانیں (بھی) ان پر دوبھر ہوگئیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ (کے عذاب)سے پناہ کا کوئی ٹھکانہ نہیں بجز اس کی طرف (رجوع کے) تب اللہ ان پر لطف و کرم سے مائل ہوا تاکہ وہ (بھی) توبہ و رجوع پر قائم رہیں، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول فرمانے والا، نہایت مہربان ہے“ایمان کی پختگی اور استقامت کا یہ واقعہ دراصل ان عاشقانِ زار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا تھا جو حقیقتاً حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسیر تھے، وہ تو اپنے آقا و مولا کو چھوڑ کر کسی اور کے در کی دریوزہ گری کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے۔ انہوں نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دی گئی ہر کڑی سے کڑی آزمائش کو نہ صرف خندہ پیشانی سے قبول کیا بلکہ امتحان کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے۔ قلم کاروان اسلام آباد کی مطالعاتی نشست میں”صحابی رسول حضرت کعب بن مالک ؓکی رحلت”کے موضوع پرمحمدعبدالرزاق نے بتایاکہ صحابی رسول حضرت کعب بن مالک ؓ اوردواور صحابہ کرام کس طرح غزوہ تبوک میں شرکت سے محروم رہے جس کے باعث انہیں محسن انسانیتکی طرف سے معاشرتی مقاطعہ جیسے سنگ گراں کوعبورکرناپڑااورپھر اللہ تعالی کے ہاں سے قبولیت توبہ کامژدہ نازل ہوا۔
٭٭٭

Exit mobile version