میں نے ورلڈ اکنامک فورم کی 2022 گلوبل رسک رپورٹ کو دنیا کے سب سے بڑے مسائل کی درجہ بندی کےلئے ڈیٹا بیس کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس مقصد کےلئے مختلف شعبوں کے ماہرین سے دنیا کے بڑے مسائل کے بارے میں پوچھا گیا۔درج ذیل فہرست دنیا کے موجودہ دس سب سے بڑے مسائل کو ظاہر کرتی ہے۔
1۔موسمیاتی تبدیلی: عالمی درجہ حرارت میں اضافہ 1.5ڈگری سینٹی گریڈ سے کم کرنے پر پیرس میں ہونےوالی آب و ہوا کی کانفرنس میں شریک ممالک نے اتفاق کیاہے۔لیکن موجودہ پیشین گوئیوں کے مطابق اب یہ ممکن نہیں رہا ہے۔کیونکہ صرف ایک ڈگری ہی زیادہ ہونے سے انسان کی تخلیق کردہ موسمیاتی تبدیلی کے نتائج بہت گھمبیر ہوچکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی اور اس کے نتائج بنی نوع انسان کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ ہےاور رہے گا گو کہ کرونا وبا یا دوسری جنگیں اس سے توجہ ہٹا رہی ہیں ۔ وبائی امراض کے نتائج اور جیو پولیٹیکل تنا کے اثرات (روس سے گیس کی سپلائی)آب و ہوا کی تبدیلی کےخلاف جنگ میں کمی پیدا کررہی ہیں ۔
2۔انتہائی موسمی واقعات: ایک طرف موسم کے انتہائی واقعات اور دوسری طرف سمندروں کے پانی کے درجہ حرارت میں ہونےوالی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسمی واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر ، قلیل مدت میں ہونے والی شدید بارشیں ، جو سیلاب کا باعث بنتی ہیں، یا جنگل کی آگ اور فصلوں کے نقصان کے ساتھ مسلسل گرمی کی لہریں۔ مزید برآں، جرمنی اور دنیا کے دیگر حصوں میں طوفان کی شدت میں اضافہ دیکھا جا رہاہےاور ان کی شدت اور تعداد مستقل بڑھ رہی ہے –
3۔حیاتیاتی تنوع کا نقصان : بہت سے جانوروں اور پودوں کی انواع انسانی بقا کےلئے ضروری ہیں۔ یہ اکیلے دنیا بھر کے لوگوں کو کھانا کھلانے کےلئے ضروری ہیں لیکن کیڑے مار ادویات اور کھادوں کے استعمال کے ساتھہ ہماری روایتی کھیتی باڑی بہت سے کیڑوں پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ اس کے علاوہ جنگلات کی کٹائی اور وہاں سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر جنگل میں رہنے والے جانوروں کی رہائش کو نقصان پہنچاتے ہیں ، بڑے پیمانے پر جنگل میں لگنے والی آگ یا ضرورت سے زیادہ ماہی گیری کی وجہ سے جانوروں کی آبادی کا خاتمہ ہورہا ہے ۔ مزید برآں، موسمیاتی تبدیلی حیاتیاتی تنوع کےلئے خطرہ کے طور پر کام کرتی ہے۔ سمندروں کی گرمی اور آب و ہوا کے علاقوں کی تبدیلی کی وجہ سے، جانوروں اور پودوں کی دنیا بہت سے معاملات سے موافقت نہیں کر سکتی ہے اور اس وجہ سے ان کے معدوم ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ ایک انواع کا ناپید ہونا لامحالہ دوسری انواع کے معدومیت کا باعث بنتا ہے جو اس ناپید انواع پر منحصر ہیں۔
4۔معاشرے کی سماجی تقسیم: کوڈ کی وبائی امراض کے نتیجے میں سماجی تقسیم کا خطرہ ایک بار پھر بڑھ گیا ہے۔ معاشرے میں سماجی عدم مساوات مختلف عوامل کو متاثر کرتی ہے۔ یہ اقتصادی، سیاسی اور تکنیکی مواقع تک غیر مساوی رسائی سے متعلق ہے۔ غریب اور امیر میں معاشرے کی بڑھتی ہوئی تقسیم مختلف نتائج کی طرف لے جارہی ہے مثال کے طور پر جرائم میں اضافہ، سماجی بدامنی یا مہاجرین میں اضافہ۔ موسمیاتی تبدیلی بھی لوگوں کو اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے۔موسمیاتی پناہ گزین خشک سالی، بیماریوں یا سیلاب کے پھیلا سےایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کررہے ہیں۔
5۔معاش کا نقصان : انسانی ساختہ موسمیاتی تبدیلی نیز فطرت میں دیگر مداخلتیں دنیا کے بہت سے علاقوں میں لوگوں کی روزی روٹی کو بتدریج تباہ کر رہی ہیں۔ یہ بہت مختلف طریقے سے ظاہر ہورہا ہے، کافی بارشوں اور گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے پانی کی کمی، بھاری بارشوں کی وجہ سے زرخیز مٹی کانقصان، غیر مناسب زراعت یا سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے نمکیات اور جنگلات کی کٹائی کے ساتھ ساتھ آبی ذخائر کی آلودگی معاش میں نقصان کررہے ہیں۔
6۔انفیکشن والی بیماری: کوڈ 19وبائی مرض نے عالمی معیشت پر اثرات کو متاثر کن طور پر ظاہر کیا ہے۔ لاک ڈان اور متاثرہ افراد کی تنہائی نے معیشت کو درہم برہم کر دیا ہے۔ پیداواری سہولیات میں کام جاری رکھنے کےلئے عملے میں کمی یا خام مال اور اسپیئر پارٹس کی سپلائی چین سے جزوی طور پر منہدم ہو گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر زیادہ بوجھ پڑا۔ بیماروں کے علاج کےلئے عملے کی کمی محسوس کی گئی اور انتہائی نگہداشت کے یونٹوں میں ناکافی صلاحیت دیکھی گئی۔ مزید برآں، طویل کووِڈ کے طویل مدتی اثرات کے علاج پر کافی رقم خرچ کرنی ہوگی۔ یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ کیا متعلقہ آبادی کو ویکسینیشن اور علاج کی صورت میں طبی امداد مل سکتی ہے؟ یا کام کےلئے نا اہل ہونے کی صورت میں بیماری میں بیمہ کے ذریعے مالی امداد دی جا سکتی ہے ؟ ۔ امیروں ملکوں میں یہ سوالات ابھر رہے ہیں تو دوسری طرف خاص طور پر غریب ممالک میں اس قسم کی کوئی مدد سرے سے ستیاب ہی نہیں ہیں۔
7 ۔ماحولیاتی تباہی : ماحولیاتی انحطاط کا مطلب مٹی، پانی، جانوروں اور پودوں کوانسانوں کی وجہ سے ہوا کو پہنچنے والا نقصان ہے۔ ماحولیاتی انحطاط حیاتیاتی تنوع کے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تباہی کی مثالیں ہیں ؛ بارشی جنگلات کی کٹائی، روایتی زراعت کے ذریعے مٹی کا کٹا، آلودگیوں کا پانی میں اخراج (کیمیائی حادثات، پٹرولیم کی نقل و حمل سے ہونےوالے حادثات، کھادوں، مائیکرو پلاسٹک سے نائٹریٹ کی آلودگی)۔
8۔قدرتی وسائل کا نقصان: قدرتی وسائل میں پینے کا صاف پانی، زرخیز مٹی، جانوروں اور پودوں کی کافی انواع اور اشیائے صرف کی پیداوار کےلئے خام مال شامل ہیں۔ تیل، قدرتی گیس اور کوئلہ بھی قدرتی وسائل ہیں۔ خام تیل اور قدرتی گیس اس وقت بہت سی پیٹرو کیمیکل مصنوعات جیسے پلاسٹک، کھاد یا دوا سازی کی تیاری کےلئے ناگزیر ہیں۔ جب قدرتی وسائل کی بات آتی ہے تو یہاں ایک اصول لاگو ہوتا ہے کہ صرف اتنا ہی استعمال کیا جا سکتا ہے جتنا کہ ایک سال میں دوبارہ اگایا جا سکتا ہو، یا ری سائیکل کیا جا سکتا ہو۔ ورنہ ہم کرہ ارض کے بریکنگ پوائنٹ کے قریب پہنچ جائیں گے۔ ہر سال تاریخ کا حساب لگایا جاتا ہے کہ کیا انسانیت نے موجودہ سال میں اس کےلئے دستیاب وسائل سے زیادہ وسائل استعمال کیے ہیں؟ یوں عالمی یوم اوور شوٹ ایک پائیدار معاشرے میں سال کے آخری دن اپنے حجم سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے – لیکن اس کے باوجود عالمی یوم اوور شوٹ ہر سال مزید آگے بڑھتا دیکھائی دے رہاہے۔
9۔قرض کا بحران : ورض کا بحران ایک ایسا بحران ہے جو ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ ہے ۔قرض کا بحران ہمیشہ اس وقت ہوتا ہے جب قرض لینے والا قرض اور سود کی ادائیگی نہیں کرسکتا ہے۔ یہ نجی افراد، کمپنیوں یا پوری معیشتوں کو متاثر کر سکتا ہے اور کر بھی رہا ہے۔ قرض کا بحران نجی افراد یا کمپنیوں کےلئے دیوالیہ پن کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ریاستی سطح پر ریاست کا دیوالیہ کی کئی مثالیں ہم دیکھ چکے ہیں جیسے یونان (2010)، ارجنٹائن (2014) یا وینزویلا (2017)۔ اس کے نتیجے میں معاشی کساد بازاری ہو تی ہے جس میں آبادی کو ضروری اشیا اور خدمات کی فراہمی کی مزید ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے۔پاکستان کا موجودہ بحران اور نئے بجٹ میں رقم کی غلط تقسیم ہمیں بھی اسی سمت لے جارہی ہے۔
10۔جغرافیائی سیاسی کشیدگی:بڑھتاہوا جغرافیائی سیاسی تنا مضبوط معیشتیں دنیا میں اثر و رسوخ کے شعبوں کےلئے مقابلہ کرتی نظر آرہی ہیں۔ چین ایک عالمی طاقت کے طور پر ترقی کر رہا ہے اور اپنی جگہ بنانے کےلئے امریکہ کو چیلنج کر رہا ہے۔تائیوان، ہانگ کانگ اور بحیرہ جنوبی چین میں چین کی خواہشات پر بحرالکاہل میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے ۔ یہاں تک کہ روس (یوکرین کےخلاف جنگ) اور ترکی (شام اور عراق پر حملہ)جیسی علاقائی طاقتیں بھی اب اپنے مفادات کو عسکری طور پر ظاہر کرنے سے باز نہیں آرہی ہیں۔ اس طرح کے تنازعات کےلئے ہونے والی لڑائی صرف فوجیوں کی تباہی کا ہی باعث نہیں بنتے ہیں بلکہ معاشی طور پر شدید تباہی دیکھ جاتی ہے۔ ماضی میں کئی ممالک اس قسم کی جنگی صورتحال کے ختم ہونے کے باوجود اپنے معاشی مسائل سے ابتک نہیں نکل سکے ہیں ۔