Site icon Daily Pakistan

راج دھانی دی تھی ہم نے

جب سے نئی حکومت آئی سرکاری تقریبات میں جانے سے گریز ہی کرتے رہے، احتیاط کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ٹی وی ٹاک شوز میں بھی جاننا مکمل طور پر ختم کر دیا۔ مگر 3اگست بروز جمعرات ایک ایسی دعوت ملی جس میں انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ مقررہ وقت سے پہلے جونہی مخصو ص آڈیٹوریم میں پہنچا تو سامنے ”ن“کے ایک سینیٹر سے آمنا سامنا ہو گیا۔ گرمجوشی سے ملنے کے بعد اپنے ساتھ ہی بیٹھنے کو کہا اور حالاتِ حاضرہ پر بات چیت شروع ہو گئی۔ میں نے عرض کیا کہ آج کل طوفانی قسم کی قانون سازی ہو رہی ہے۔ چونکہ ان سے راز داری والا تعلق بہت مضبوط ہے کہنے لگے اللہ جانتا ہے معلوم ہمیں بھی نہیں ہوتا بس ہاں میں جواب دینا ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ تو ایک وقت میں بڑی مضبوط اور طاقتور شخصیت تھے تو پھر اتنی بے بسی کیوں۔ جوابا ًبس اتنا ہی کہا کہ تفصیلات اگلی ملاقات پر انشا اللہ۔ اتنی دیر میں ن کی ہی چار خواتین ممبران اسمبلی آن پہنچی۔ ان میں ایک کا تعلق راولپنڈی سے تھا اور ان سے شناسائی تقریبا ًچالیس سال پرانی تھی۔ ایک اور ممبر صاحبہ کے والد صاحب بہت منجھے ہوئے سیاستدان ہیں ان سے بھی کوئی دہائیوں کا تعلق ہے۔ سلام دعا کے بعد ادھر ادھر کی بہت باتیں ہوئیں مگر سچ یہی ہے کہ ان کی باتوں میں کسی طرح کی کوئی سنجیدگی نہیں تھی یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے کسی پکنک میں وقت گزار رہی ہے۔ اتنی دیر میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ایک اور اہم راہنما سمیت آن پہنچے ۔ وہ دونوں ایک دوسری طرف لے کر گئے اور کہنے لگے کہ اندر کی کوئی بات بتاﺅ۔ حیرت سے میں ان کی طرف دیکھنے لگا۔ جناب یہ سوال تو میرا بنتا ہے۔ بہرحال حاصل گفتگو یہ تھا کہ حافظ صاحب شاید سب کےساتھ ہی سیدھے ہو جائیں گے۔ اتنی دیر میں مسلم لیگ ن کے دو سینئر وفاقی وزیر بھی تشریف لے آئے، شکوہ کے انداز میں کہا کہ اب جب ہم خود جانےوالے ہیں آپ نظر آئے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ اتنی ہی دیر میں اعلان ہوا کہ اپنی اپنی نشستوں پر تشریف رکھیں ، مہمان خصوصی پہنچنے والے ہیں اور تقریب کا آغاز کیا جاتا ہے۔ تقریب کے اختتام پر ہائی ٹی پر مزید ملاقاتوں پر مجھے راحت اندوزی کے درج ذیل اشعار بے اختیار یاد آئے:
جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولو
سرکاری اعلان ہوا ہے سچ بولو
گھر کے اندر جھوٹوں کی ایک منڈی ہے
دروازے پر لکھا ہوا ہے سچ بولو
گلدستے پر یکجہتی لکھ رکھا ہے
گلدستے کے اندر کیا ہے سچ بولو
گنگا میں ڈوبنے والے اپنے تھے
ناﺅ میں کس نے چھید کیا ہے سچ بولو
اتفاق سے اسی دن وزیراعظم نے بارہ کہو فلائی اوور کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس فلائی اوور کی تعمیر میں این ایچ اے، اس کے سربراہ اور باالخصوص آرمی چیف کا بے حد شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جن کی مدد کے بغیر یہ فلائی اوور وقت مقرر پر تعمیر نہیں ہو سکتا تھا۔ ان کے اس اعلان پر مبصرین دو طرح کے تبصرے کر رہے ہیں۔ ایک یہ کہ موجود حکومت کی بس اتنی ہی اوقات کہ ایک فلائی اوور بھی آرمی کی مدد کے بغیر مکمل نہ ہو سکے اور دوسرا یہ کہ بلاشبہ این ایچ اے نے بڑی محنت کی مگر سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے وزیراعظم کا جلد مکمل کرنے اور افتتاح کے شوق کی وجہ سے اس میں کئی فنی مسائل موجود ہیں جس کی وجہ سے خدانخواستہ کوئی بڑا حادثہ ہو سکتا ہے جیسے پہلے بھی یہیں پر ایک بار ہوا۔چنانچہ کریڈٹ کسی اور کو دینے کا مطلب آپ خود ہی سمجھ سکتے ہیں۔سابق کرکٹر بالآخر اٹک جیل میں پہنچ چکے ہیں اب فی الحال دیسی مرغیاں اور بکرے کے گوشت سے محروم رہنا پڑے گا۔ ابھی تو ایک کیس کا فیصلہ آیا ہے۔یکے بعد دیگرے کئی اور کیسوں کے فیصلے آنے والے ہیں۔ پارٹی پر بین بھی شاید لگ جائے اور بلے کا نشان بھی جاتا رہے۔ تاہم مارکیٹ میں ایک تھیوری اور بھی ہے وہ یہ کہ اگر سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے پارٹی پر پابندی لگانا مشکل ہوئی تو چوہدری پرویز الٰہی کو رہا کر دیا جائیگا۔ صدر تو وہ ویسے بھی ہیں چنانچہ باقی ماندہ پارٹی ان کی قیادت میں چلے گی کیونکہ وائس چیئرمین بھی سائفر کیس میں شاید پابندِ سلاسل ہو جائیں۔اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ہمارے ملکی حالات بہت ہی خراب ہیں۔ بقول شاہد خاقان عباسی گزشتہ 2سال کے عرصہ میں پاکستان کی سبھی پارٹیاں اقتدار میں رہ چکی ہ یں۔ معیشت سمیت کوئی بھی پارٹی حالات پر قابو نہیں پا سکی ایسے حالات میں اگر الیکشن ہو بھی گئے تو وہ بے مقصد اور بے معنی ہونگے۔ آنےوالی نئی حکومت پھر ایک بار شکار پوری اچار ہو گی اور یوں ملک مزید خطرات میں گھرتا جائے گا۔ ابھی تو مردم شماری کا ایک نیا کٹاکھل جائے گا۔ پنجاب کی آبادی کم ہو گئی ہے جبکہ بلوچستان کی آبادی دوگنی ہو گئی ہے ۔ اسی طرح اندرون سندھ میں آبادی زیادہ جبکہ کراچی میں کم ہو گئی ہے۔ بہرحال آنےوالے دنوں میں سب کی نظریں آرمی چیف جنرل عاصم منیرپر ہونگی۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحیح اور بروقت فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ الیکشن پہلے ہی تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں مزید کچھ عرصہ لگ گیا تو کوئی قیامت نہیں آتی۔ محبِ وطن سیاستدانوں اور لوگوں کا ایک پیغام سپہ سالار کے نام :
صرف قبروں کی زمینیں دے کے مت بہلائیے
راج دھانی دی تھی ہم نے راج دھانی چاہئیے

Exit mobile version