دوہزار پانچ کے بعدمارچ 2023میں ایک بار پھر خوفناک زلزلہ نے جڑواں شہروں کو آلیا جس سے پنڈی اسلام آباد لرز اٹھا ۔زمین ایک منٹ تک ہلتی رہی ۔یوں لگا جیسے اج واقعی ہی کسی بیل نے زمین کو سنگوں پر اٹھا کر گھما دیا ہو ۔ زلزلے سے شکر ہے کوئی جانی مالی نقصان نہیں ہوا البتہ اس وقت سے سپریم کورٹ میں بھی ‘ زلزلہ” کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں الیکشن پر بنایا گیا بنچ ٹوٹنے کی ہیٹرک ہو چکی ہے جس سے جوڈیشری کو مالی و جانی نقصان تو نہیں ہوا البتہ شہرت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس مارچ والے زلزلے میں اس روز فیملی کے ساتھ اسلام آباد کی بلند و بالا عمارت کے دوسرے فلور پر تھا ۔ہر کوئی اپنی جان بچانے ورد کرتے بلڈنگ سےباہر بھاگ رہا تھا۔ ایسے میں نیک دل لوگ ۔ بزرگوں کو کندھے پر اٹھائے دیکھا۔اس زلزلہ کی شدت چھ اعشاریہ پانچ سے زیادہ تھی۔ یہ قدرتی آفات انسانوں کو جنجوڑنے آتی ہیں کہ اے انسان یہ دنیا عارضی ہے کسی کے حکم پر فیصلے نوکریاں نہ کرنا۔چند سیکنڈ میں گھر سے بے گھر ہو سکتے ہو۔ ہم میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کو دل سے یقین نہیں کہ یہ دنیا عارضی ہے ۔ایسے موقع پر وقتی طور پر للہ کا ورد کرتے ہیں مگر للہ سے ڈرتے نہیں ۔یہ اسلام اور چند ٹکوں اور ببیوی چوں کی خاطر ملک کا بھیڑا غرک کرتے ہیں ان میں شمار ایسے لوگوں کا ہے جو پڑھے لکھے کہلاتے ہیں ۔یہ بھی ہر وہ کام کر تے ہیں جس سے دوسروں کی زندگیاں اجیرن ہو جاتی ہیں ۔ دنیا والے سائنس میں ترقی اس لئے کرتے ہیں کہ دوسرے انسانوں کےلئے آسانیاں پیدا ہوں اور ہم سائنس سے فائدہ اٹھا کر کیمیکل سے دودھ دو نمبر بناتے ہیں ۔ بھینس سے دودھ زیادہ لینے کیلئے اسے ٹیکے لگاتے ہیں ۔کچھ ڈاکٹر بن کر گردوں کا کاروبار کرتے ہیں وکلا انہیں بچاکر جنہم کا راستہ لیتے ہیں ۔عام آدمی چیزوں میں ملاوٹ کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے ۔بڑے عہدوں کے حامل حلف اٹھا کر حلف کی پاسداری نہیں کرتے ۔سیاست دان جھوٹ بولتے ہیں قوم کو سرسبز باغ دکھاتے ہیں۔غلط بیانیاں دیتے ہیں یہ سب کچھ کر کے عمرہ اور حج کر آتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ گناہ کئے تھے ۔وہ معاف ہو جاتے ہیں ۔یہاں ۔پڑھے لکھے اور ان پڑھ سبھی ایک صف میں کھڑے ہیں ۔واردات البتہ ہر ایک کی مختلف ہے ۔ایسا یہ اس لئے کرتے ہیں کہ یہ خدا سے ڈرتے نہیں آئین قانون حلف کی پرواہ نہیں کرتے اپنے کئے پر شرمندہ نہیں ہوتے ۔شائد اس لئے کہ ہم دنیا کے ایسے خطے میں واقع ہیں جہاں غلطیوں پر شرمندہ ہونا کسی نے سیکھا ہی نہیں ۔دنیا میں سب سے زیادہ حج اور عمرہ کرنے والابہلا ملک کہلاتا ہے ۔دنیا میں دو نمبری ملاوٹ جھوٹ فریب دینے والا بھی یہ ملک پہلے نمبر پر ہے ۔اس وقت ہماری عدلیہ کا 126نمبر ہے مگر کیا مجال کہ اس کی بہتری پر کسی نے سوچا ہو یا اس کی بہتری کیلئے خود جوڈیشری نے کچھ کیا ہو ۔ عالی عدلیہ کے ججز ایک ساتھ بیٹھتے نہیں اپس میں مشورہ نہیں کرتے۔ اب ان کے اندر کے اختلافات کھل کر سامنے آچکے ہیں ۔ عدلیہ کے ماضی کے غلط فیصلوں کے تبصرے ہر کوئی جانتا ہے ، اب تو ان میں گروپ بندی دکھائی دینے لگی ہے ۔چیف صاحب افطاری پر بلا لیتے مشورے کرتے وہی بنچ بناتے ہیں جن کے فیصلے سے پہلے بنچ کو دیکھ کر عام بندہ بتا دیتا ہے کہ فیصلہ کیا آئے گا کس کے خلاف ائے گا ؟ ملک پہلے ہی معاشی سیاسی بحران کا شکار تھا اب عدالتی بحران بھی سر اٹھا چکا ہے اگر الیکشن بحران میں عدلیہ نے سوموٹو لیا تو دیکھ لیتی کہ وقت سے پہلے کیوں دو اسمبلیاں ٹوٹی تھی ساتھی ججز بھی کہہ چکے تھے کہ پہلے اس پر غور کریں مگر ایسا نہیں کیا پھر حکومت نے شور کرنا شروع کیا کہ اس کیلئے لاجر بنچ بنا لیا جائے مگر شروع میں جو نو رکنی بنچ بنا تھا وہ بھی ٹوٹ گیا اور پانچ رکنی بنچ بنا کر جلدی سے فیصلہ سنا دیا جس کے نتائج حکومت نے اور الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کئے ۔ الیکشن کمیشن نے کافی سوچ بچار کے بعد اپنا فیصلہ دیا کہ پورے ملک میں الیکشن ایک ساتھ اسی سال آٹھ اکتوبر میں کرائے جائیں گے ۔الیکشن نہ کرانے کی وجوہات بھی بتاچکا ہے لیکن میں نہ مانو کی رٹ لگانے والوں نے ایک بار پھر عدالت کے دروازے پر دستک دی۔ اب عدلیہ کا دروازہ کھل چکا ہے ۔گیند عدلیہ کی کورٹ میں ہے جس کو کھیلنے کیلئے پندرہ رکنی ٹیم دفاع کرتی تو نتائج سب مان لیتے ۔ مگر ایک بار پھر پانچ کا بنچ بنا اور وہ بھی ٹوٹ گیا پھر چار کا بنچ بنا مگر وہ بھی ٹوٹ گیا ۔ اب تین کا بنچ باقی بچا ہے اور یہ کیس سن رہا ہے۔دو روز کے وقفے کے بعد سوموار کو یہ متنازعہ تین رکنی بنچ سنے گا اب بھی اٹارنی جنرل اور دوسری جماعتوں کے نمائندوں نے لاجر بنچ کی درخواست کر رکھی ہے ۔ دوسری طرف حکومت نے یہ ضروری سمجھا کہ سپریم کورٹ کے رولز میں تبدیلی کی جائے تانکہ سو موٹو کیس میں ون مین شو کا خاتمہ ہو ۔ قانون پاس ہو جانے سے سو موٹو کے کیسوں میں بھی اب اپیل کی جاسکے گی۔ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا جس کا نقصان سیاستدانوں اور عام شہریوں کا ہوا ۔ ماضی کی عدلیہ کے فیصلے بد نیتی پر ہوئے جیسے ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کے فیصلے ۔ اس کے قصور وار ماضی کے چیف جسٹس صاحبان ہی تھے ۔ جنہوں نے قانون کے مطابق فیصلے نہیں لکھے تھے۔خود تو یہ لکھ کر چلے گئے لیکن ان کے فیصلے اب بھی زندہ ہیں جو ان کی یاد دلاتے رہتے ہیں لہٰذا ان حالات میں سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی لانا وقت کی اہم ضرورت تھی۔ اس نئے قانون کی وجہ سے اب تیس دن کے اندر اپیل کی جا سکے گی ۔ وفاقی حکومت نے وکلا پروٹیکشن ایکٹ 2023بھی منظور کرا لیا ہے جس سے وکلا کی دیرینہ خواہش پوری ہو ۔ جس پر لا منسٹر اعظم نذیر تارڑ اور شہادت اعوان مبارک باد کے مستحق ہیں۔ جہاں حکومت نے سپریم کورٹ کے رولز پر کام کر دکھایا وہی انہیں چاہیے تھا کہ ججز کی سلیکشن پر بھی بل پاس کرا لیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا ۔ابھی تک انگلیاں ججز کی سلیکشن پر اٹھ رہیں ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی سلیکشن کے طریقے کار سے کوئی خوش نہیں ۔تمام ججز کی سلیکشن سے پہلے اور بعد سلیکشن کے ہر سال بعد ان کی جسمانی اور نفسیاتی بھی چیک اپ کم از کم پانچ رکنی سینئر ڈاکٹروں سے کرایا جانا ضروری ہے۔ ان کے ہر سال اثاثے اور بنک کی تفصیل بھی بتایا کریں کہ جج بنے سے پہلے کیا تھے اور اب کیا ہیں ۔ سب سے زیادہ تنخواہیں مراحات انہیں ملتی ہیں مگر کہا جاتا ہے پھر بھی یہ وکلاءپر غصہ کرتے ہیں عزت سے پیش نہیں آتے۔ جتنی اچھے طریقے سے ججز کی سلیکشن ہو گی اتنے ہی اچھے فیصلے عوام کو دیکھنے کو ملے گے۔ جس جس بڑے نے اپنے وقت میں حلف کیخلاف فرضی کی ہو ان کی تمام جائیدادیں ضبط اور پنشن بند کی جائے خرابیاں ہر ادارے ہر انسان میں ہیں اگر یہ خامیاں کم ہوں تو نظر انداز ہو جاتی ہیں لیکن وہ خامیاں جو بغیر چشمہ لگائے کے نظر آنے لگیں ان کو برداشت کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہو جاتا ہے ۔اسی طرح ہر پانچ سال کے بعد سیاستدان جب ممبر اسمبلی کے امیدوار کے طور پر میدان میں اتریں تو ان سب پر بھی لازم قرار دیا جائے کہ ان کے جسمانی و نفسیاتی ٹیسٹ پاس کرانا ہونگے ۔ ملک میں ڈرگ عام ہے لہٰذا ان کے بھی کھلاڑیوں کی طرح ان سیاسی امیدواروں کے ڈوپ ٹیسٹ کرائے جائیں ایسے کرنے سے سیاستدانوں میں لڑائی جھگڑے گالم گلوچ اور الزامات کی سیاست کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔ایسے بہت سے بل اسمبلی سے پاس کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ضرورت یہ بھی ہے سپریم کورٹ کے بنچ بار بار ٹوٹنے پر سوچ بچار کی جائے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ اگر چیف جسٹس صاحب بنچ بنانے سے پہلے تمام ججز سے مشاورت کر لیتے تو بنچ اور دل نہ ٹوٹتے کہا جاتا ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ لارجر بنچ بنائے یا گھر جائے ورنہ اس بنچ کے فیصلے سے انتشار پھیلے گا ۔ عدلیہ اب تک بنچ ٹوٹنے کی ہیٹرک کر چکی ہے اب مزید غلطی کی گنجاش نہیں ہے۔کل کیس کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی اواز بھر ا اور آنسو تیرنے لگے تھے جس پر سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر روسٹرم پر آئے کہا ہم اپ سے زیادہ آنسو بہا سکتے ہیں اپ کاکام انسو بہانا نہیں ہے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہے عرفان قادر صاحب نے سچ کہا۔ وقت کی ضرورت تھی کہ عرفان قادر اٹارنی جنرل ہوتے توحالات مختلف ہوجاتے۔ جسٹس صاحب اپنے ساتھی جج جن کا کیس جوڈیشیل کمیشن کے پاس ہے ان کے خلاف فیصلہ کرنے سے آبدیدہ ہوئے تھے کہا جاتا ہے کاش اس وقت بھی ابدیدہ ہوئے ہوتے جب جسٹس قاضی فاز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس ایا تھا ان کی فیملی کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا تھا اور جب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو نکالا گیا تھا۔ اس وقت اپ ابدیدہ نہیں ہوئے تھے جو کچھ ہو رہا ہے اس سے اداروں پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں ماضی کے زخم ہرے ہو رہے ہیں سب پریشان ہیں ۔اے للہ ہم پہ رحم فرما! مگر کہا جاتا ہے
خدا نے اج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال اپ اپنی حالت کے بدلنے کا