دنیا کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی اور ہماری مثال اب بھی کنوئیں کی مینڈک کی طرح ہے ۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ہمارے سیاستدانوں، سول وملٹری بیوروکرٹس اور اشرافیہ کےلئے کوئی ایسا ہسپتال نہیںبنایا جس میں وہ اپنا علاج معالجہ کرسکیں۔ نتیجتاً یہی لوگ ہر قسم کے علاج کےلئے خود اور اپنے اہل اعیال کے ساتھ بیرون ملک علاج کےلئے جاتے ہیں۔ میں ان سیاستدانوں ، بیوروکریٹ ، فوجی جرنیلوں کانام لیکر تلخی کا ماحول پیدا نہیں کرنا چاہتا ۔ مگر سب کو پتہ ہے کہ ماضی قریب میں اور اس سے پہلے ہمارے سیاسی پارٹیوں کے وہ کونسے سیاستدان ، فوجی جنرلز اور بیوروکریٹس نہیں جو علاج کےلئے بیرون نہیں گئے۔ کوئی ایسی سیاسی پارٹی نہیں ہوگی جسکا لیڈر اور راہنماءبیرون ملک علاج کےلئے نہیں گیا ہوگا۔یہ تو اللہ بھلا کرے پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کا، جنہوں نے صحت کارڈ متعارف کرکے اب 90 فیصد مریض بھی اپنا علاج اپنے من پسند ہسپتالوں سے کرتے ہیں۔ہر دور میں ہر دور کے سیاستدان ، فوجی اور سول بیروکریٹس اور اشرافیہ اقتدار پر برا جمان رہے مگر افسوس صد افسوس کہ وطن عزیز میں انکے پسند کا کوئی ہسپتال نہیں جس میں وہ اپنا علاج معالجہ کرسکیں۔جبکہ اسکے بر عکس ہمارے ساتھ آزاد ہونے پڑوسی ملک بھارت میں سالانہ تقریباً 5 لاکھ مریض دنیا کے مختلف حصوں سے ،جس میں پاکستان، بنگلہ دیش، ترکی، بلغاریہ، افغانستان ، سعودی عرب، عراق، مالدیپ، نائیجیریا، کینیا اور دوسرے کئی ممالک سے علاج کےلئے آتے ہیں۔ایک تو بھارت کے ڈاکٹر انتہائی Competent اور دوسرا بھارت کے ڈاکٹر خواہ وہ کسی طب کے شعبے سے وابستہ ہو اپنے کام میں مگن اور دلچسپی لینے والے ہوتے ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ بھارت بیرون ممالک مریضوں کے علاج معالجے سے سالانہ 20 ارب ڈالر کماتے ہیں۔بھارت ، کیوبا، کاسٹ رائس اور برازیل کے بعد چو تھا ملک ہے جہاں پر سستا ترین اور اعلیٰ قسم کا معیاری علاج معالجہ ہوتا ہے۔ بھارت کے جن جن شہروں میں اعلیٰ قسم کے طبی ادارے قائم اور موجود ہیں اُن میں دہلی، کولکتہ،چنائی اور ممبئی شامل ہیں۔سال 2020-21 میں بھارتی حکومت نے ہسپتالوں کے بنیادی ڈھانچے کو اعلیٰ بین الاقومی معیار بنانے کےلئے 40 ارب کے قریب بھارتی روپے مختص کئے۔ بھارت میں بات صرف بہترین علاج معالجے تک نہیں بلکہ انڈیا دنیا کے 200 ممالک کو ادویات بھی ایکسپورٹ کرتا ہے۔پاکستان ، بھارت اور چین تقریباً ایک وقت میں معرض وجود میں آئے ہیں مگر یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ یہ دونوں ممالک کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے اور ہم ابھی پتھر اور دھات والے دور میں رہ رہے ہیں ۔ بھارت نہ صرف بیرون ممالک اعلیٰ قسم کا علاج معالجہ مہیا کرتا ہے بلکہ انڈیا کے ڈاکٹر بھی بیرون ملک خدمات سرانجام دیتے ہیں جس سے وہ سینکڑوں ارب ڈالر خارجہ سکہ کماتے ہیں ۔ میں اس کالم کے توسط سے وطن عزیز کے سیاستدانوں ، ملٹری و سول بیورو کریٹس اور اشرافیہ سے استد عاکرتا ہوں ، اگر آپ عوام کو بین الاقوامی معیار کا ہسپتال نہیں بناسکتے تو کم ازکم اپنے لئے تو بین الاقوامی معیار کا ہسپتال بنادیں تاکہ آپ اور آپکے اہل خانہ کم از کم اس ہسپتال میں اپنا علاج تو کرسکیں اور پاکستان جسکو زر مبادلے کی انتہائی ضرورت ہے اسکو بچایا جاسکے۔ اس ملک کے غریب اور پسے ہوئے عوام کب تک ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے۔ میں نے اپنے کالم میں امریکہ، کنیڈا ، جرمنی ، بر طانیہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کا ذکر اس لئے نہیں کیا کیونکہ پاکستان اور بھارت بیک وقت آزاد ہوئے ہیںاسلئے میں نے مثال بھارت کی دی ہے ۔ اگر بھارت طب اور دوسرے کئی فیلڈوں میں ترقی کرسکتا ہے تو پاکستان 77 سال گزارنے کے بعد کیوں ترقی نہیں کر سکتا۔کیونکہ ہمارے لیڈر قائدین ملک کے ساتھ مخلص نہیں ۔ روزگار ، صحت ، انصاف کی فراہمی ، تعلیم کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان پاکستان کے 22 کروڑ عوام ان سہولیات میں کوئی بھی میسر نہیں۔اور غریب عوام پستے جا رہے ہیں۔عوام کو چاہئے کہ وہ انتخابات میں ایسے امیدواروں کو ووٹ دیں جو تعلیم یافتہ اور قابل ہوں جو عوام کی خدمت کر سکیں۔
سیاستدانوں کے علاج کےلئے ملک میں کوئی ہسپتال نہیں؟
