پنجاب اور پختونخوا میں صوبائی انتخابات کی تاریخ کے تعین پر سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہونے لگا ہے۔عدالتی فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے مزاحمت کا حتمی اور قطعی فیصلہ کر لیا ہے ۔ پارلیمنٹ میں تندو تیز اور جارحانہ تقاریر کے علاوہ پی ڈی ایم اپنی صفیں سیدھی اور پتے شو کرنے لگی ہے۔گماں گزرتا ہے کہ یہ ٹکراو شاید طویل ہو اور سیاسی طاقتیں اب خم ٹھونک کر اور سر اٹھا کر پارلیمان کی بالا دستی اور برتری کی جنگ لڑیں گی۔ہمارے ذرائع کے مطابق مرکزی حکومت الیکشن کمیشن کو دس اپریل تک سرکاری فنڈز مہیا نہیں کرے گی۔اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو عدالتی اصلاحات کے ترمیمی بل کی مدت پوری ہونے کا انتظار ہے۔اس کے بعد حکومت تین رکنی بنچ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کی چوکھٹ پر جائے اور وہاں ایک بار پھر عدالتی کٹہروں میں آئینی و قانونی جنگ لڑی جائے گی۔مرکزی حکومت کا سارا زور اور دارو مدار اب تین اور چار کے حساب سے فیصلہ مسترد ہونے پر ہو گا۔کہا جاتا ہے اب عرفان قادر کو مسلم لیگ ن نے فری ہینڈ دے دیا ہے اور اب وہ عدالت میں اپنے آئینی اور قانونی موشگافیوں کے خوب جوہر دکھائیں گے۔صاف اور سیدھی بات ہے کہ حکومت الیکشن کرانے سے انکاری نہیں بس انتخابی تاریخ پر اختلاف ہے ۔مریم نواز اب واشگاف انداز میں کہہ چکی ہیں کہ عمران خان اور ان کے سہولت کاروں نے اگلے چیف جسٹس کے آنے سے پہلے کی ٹائم لائن بنا رکھی ہے۔سیاسی حالات اور سازشی حوادثات کو دیکھ کر اطمینان و سکون سے یہ پیشگوئی کی جا سکتی ہے کہ یہ الیکشن اب اتنی آسانی سے ہونے والے نہیں۔بلکہ ہمارے ایک ذرائع نے رازدارانہ انداز میں بتایا ہے کہ حکومت کا عدالتی تاریخ پر الیکشن کرانے کا کوئی پروگرام نہیں۔حکومت تمام اور عام انتخابات ایک ہی وقت میں کرائے گی تاکہ سرکاری خزانہ بچایا جا سکے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم سمیت جن وزرا نے عدالتی فیصلے کو مسترد کیا ہے، ان سب کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس بھجوا ئیں گے،چیف جسٹس نے پروا کیے بغیر آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا ہے، اس پر ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ہم نے مسلم لیگ ن کی بطور پارٹی رکنیت منسوخی کے لیے بھی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔قارئین باتمکین اس لب و لہجے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے ایام کٹھن اور گھمبیر ہونگے کیونکہ کوئی بھی فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ایک دوسری ممکنہ صورت اور منظر نامہ یہ بھی بن رہا ہے کہ پارلیمنٹ کا پاس کردہ عدالتی اصلاحاتی ترمیمی بل جب نافذ ہوگیا تو فوری طور پر مسلم لیگ نواز شریف کی سزا کے خلاف بھی اپیل دائر کرے گی۔ نواز شریف کی لندن سے پاکستان واپسی اب مہینوں یا سالوں پر محیط نہیں رہی بلکہ دنوں اور گھنٹوں تک بات آن پہنچی ہے۔ظاہر و باہر ہے جب نواز شریف پاکستان میں ہوں گے اور وہ کھل کر سیاست کریں گے تو سیاسی منظر نامہ یکسر بدل جائے گا۔عمران خان کو بذات خود بھی یہ خوف لاحق ہے کہ اگر نواز شریف واپس آ گئے تو ان کا ووٹ بنک بہت حد تک متاثر ہو گا ۔یوں کہیے کہ اب مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان ایک سخت معرکہ آرائی کا وقت آن پہنچا ہے۔حکومت ہر صورت تمام انتخابات ایک ساتھ ہی کرائے گی، چاہے اس کے لئے اسے کسی بھی حد تک جانا پڑے۔سیاسی لڑائیاں اور جمہوری جنگ ایک جانب اب مسلم لیگ 2018 والا کھیل نہیں دہرانے دے گی۔مریم نواز کشتیاں جلا چکی ہیں اور ببانگ دہل جمہوری قوتوں کے خلاف صف آرا ہو چکی ہیں۔انتخابی مہم کے ساتھ ساتھ وہ دونوں جانب بلکہ تین چار اطراف جنگ لڑ رہی ہیں کہ معرکہ ان کے نام رہے اور نواز شریف فاتح ٹھہریں۔ راولپنڈی میں وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ جس الیکشن کی بات کی جا رہی ہے اور جو عمران خان مانگ رہا ہے، میں لکھ کر دیتی ہوں کہ الیکشن ہوں گے اور یہ ہار جائے گا،پھر یہ ان الیکشن کو بھی نہیں مانے گا اور اگلے 5 سال تک اسی کو لے کر بیٹھا رہے گا،یہ گزشتہ الیکشن نہیں ہے، جو ہونا تھا وہ ہو گیا،اب کچھ نہیں ہو گا اور نہ ہم ہونے دیں گے، جو ظلم ملک و قوم اور معیشت کے ساتھ ہونا تھا وہ ہوچکا، دکھ ہوتا ہے کہ کچھ سازشی قوتیں منتخب وزرائے اعظموں کو نکالتی رہےں، سزائیں دیتی رہےں لیکن کسی ڈکٹیٹر کوکچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی،پاکستان کی 76سالہ تاریخ میں 40برس آمریت رہی ہے، کسی منتخب وزیراعظم کو اپنی مدت کبھی پوری نہیں کرنے دی گئی،کسی نظریے یا کسی اصول کےلئے جیل جانا بڑے فخر کی بات ہے، میں دو مرتبہ سزائے موت کی چکیوں میں رہ کر آئی ہوں لیکن ایک دن نہیں روئی، نہ پچھتائی کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ حق کا راستہ کبھی آسان نہیں ہوتا، مسلم لیگ ن اب بھی نہ کسی خوف کا شکار ہوگی نہ کسی سہولت کار سے ڈرے گی۔ایسا لگتا ہے کسی نے سیاسی صور اسرافیل پھونک دیا ہو اور حشر کی گھڑی آن پہنچی ہو۔جی ہاں اب پاکستان میں سیاستدان اور جمہوریت عرصہ محشر ہی میں ہے ۔سیاسی گرمی انتہا کو پہنچنے لگی ہے اور ابھی سے ہی جمہوری تپش کے کو ئلے دہکنے لگے ہیں ۔ امید کرنی چاہئے کہ جو بھی ہوگا ملکی سلامتی ،آئینی بالادستی اور پارلیمانی برتری کےلئے بہتر ہوگا۔
سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ
