توہین عدالت کے قانون کے اسرار و رموز میرے جیسا عامی کیا سمجھے ، بس اتنا اندازہ ہے کہ جس طرح ہر توہین ایک غیر اخلاقی اور قابل مذمت فعل شمار کی جاتی ہے اسی طرح معزز عدلیہ اور اس کے معتبر ججز کی توہین بھی بہت ہی بری اور قابل مواخذہ عمل ہے۔ ہمارے ہاں سیاستدانوں کو اس توہین عدالت کے قانون کے تحت نااہل تک کیا گیا ہے ،ایک وزیراعظم کو تو کھڑے کھڑے بیک بینی دو گوش ، چند منٹ کی موثر بہ ماضی سزا سنا کر وزارت اعظمیٰ سے بھی ہٹا دیا گیا اور پانچ سال کےلئے نااہل بھی کر دیا گیا تھا ۔تو ایک عام تام پاکستانی کے طور پر مجھے کچھ کچھ اندازہ ہے کہ توہین عدالت بہت ہی سنگین اور خطرناک عمل ہے۔ جس طرح جانوروں ، پرندوں اور پیڑ پودوں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ اسی طرح ایک مظلوم معاشرے میں انسانوں کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں۔یہاں میں یہ وضاحت کردوں کہ یہ جو کتابوں میں لکھا ملتا ہے کہ تمام انسان برابر ہوتے ہیں ،یا یہ جو شور مچایا جاتا ہے کہ قانون کی نظر میں سارے انسان برابر ہوتے ہیں ،یہ کافروں کے ملکوں میں سچ ہو تو ہو ، ہماری اسلامی جمہوریہ میں ایسا کچھ بالکل نہیں ۔ یہاں انسانوں کو ان کی دولت ،ان کے منصبی رتبے ،ان کی گروہی نسبت اور ان کی عوامی مقبولیت کے اعتبارسے الگ الگ سلوک کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔مثال کے طور پر وفاقی دارالحکومت کی ایک ایڈیشنل سیشن جج محترمہ زیبا چودھری کو دھمکانے کے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے پیش ہونےوالے عمران خان کے کیس کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ جس کا جب جی چاہتا ہے وہ برے ناموں سے پکارنا شروع کر دیتے ہیں،ملک کے سیاستدانوں کے نام بگاڑ رکھے ہیں ۔جس طرح اس دشنام طرازی کو برداشت کیا جاتا ہے ،اس کی مثال ہماری عدالتی اور غیر عدالتی تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ایف نائن پارک میں عمران خان نے دھمکیوں کی فراخ دلانا تقسیم و ترسیل کرتے ہوئے اسلام آباد کی ایک ایڈیشنل سیشن جج محترمہ زیبا چودھری کو مخاطب کرکے دھمکیوں کا نشانہ بنایا۔اب ایک معزز خاتون جج کو جلسہ عام میں دھمکیاں دینے کا یہی کیس اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ معزز جج صاحبان کے روبرو ہے ۔ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے عمران خان کے روسٹرم پر موجود وکیل حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ آپ اپنے سائل کے وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ عدالت عالیہ کے پانچ رکنی بنچ کے عدالتی معاون بھی ہیں ۔ توہین عدالت کا ملزم عدالت میں براجمان تھا ۔اس نے ایک ادائے بے نیازی کے ساتھ اپنے وکیل حامد خان کو روسٹرم پر کھڑا کر رکھا تھا۔سامنے پانچ عدد فاضل جج صاحبان موجود تھے اور چیف جسٹس صاحب اپنے فاضل تبصرے فراواں کررہے تھے ۔اس سے پہلے اپنے تحریری جواب میںعمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے جاری کردہ شو کاز نوٹس کا جواب جمع کرا دیا تھا۔ تحریری جواب میں عمران خان اپنے لسانی طرز عمل اور خاتون جج کے بارے میں نازیبا انداز و الفاظ کے استعمال پر معذرت کرنے سے گریز کرتے ہوئے ، دھمکی والے الفاظ واپس لینے کی پیشکش کی اور قرار دیا کہ اگر الفاظ غیر مناسب معلوم ہوتے ہیں تو وہ ان الفاظ کو واپس لینے کیلئے تیار ہیں۔عمران خان نے جواب میں لکھا ہے کہ وہ اس غلط فہمی اور مغالطے میں تھے کہ زیبا چوہدری کوئی جوڈیشل افسر نہیں ہیں ، اور میں اس سلسلے میں غلط فہمی کا شکار رہا ۔فاضل عدالت نے عمران خان کے جواب پر ان سے سوالات نہیں کئے ورنہ پوچھا جا سکتا تھا کہ اگر کوئی خاتون جوڈیشل افسر نہ بھی ہو ، تو کیا اسے ایک سیاسی جماعت کا لیڈر جلسہ عام میں دھمکا یاسکتا ہے؟ ستم ظریف کل سے ہر پاکستانی کی طرح ایک ماہر قانون بنا ہوا ہے ، اس نے ایک قانونی نکتہ اٹھایا ہے کہ دھمکی تو ایک خاتون جج کو دی گئی ہے، اس میں ملزم کو حکم کیوں نہیں دیا گیا کہ وہ معزز خاتون جج سے براہ راست اور غیر مشروط معافی طلب کرے؟ اگرچہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہرمن اللہ نے دوران سماعت تبصرہ کیا کہ عمران خان کے جواب سے انھیں دکھ ہوا ہے اور یہ بہتر ہوتا کہ اس عدالت میں آنے سے پہلے وہ ایڈیشنل سیشن جج کے پاس چلے جاتے لیکن امر واقعہ تو یہ ہے کہ عدالت عالیہ نے یہ بات عدالت میں متمکن ملزم سے براہِ راست نہیں پوچھی ۔عدالت کو چاہیئے تھا ملزم کو روسٹرم پر طلب کرتی اور سوال جواب کرکے اندازہ لگاتی کہ ملزم اپنے فعل پر نادم بھی ہے یا نہیں؟تاہم عدالت نے اپنے تحریری حکم نامے میں عمران خان کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے جاری کردہ شوکاز نوٹس واپس نہیں لیا ،لیکن ساتھ ہی فاضل عدالت نے ملزم کے وکیل حامد خان کے علاہ کراچی کے معروف وکیل منیر اے ملک اور پاکستان بار کونسل اور مخدوم علی خان کو بھی عدالتی معاون مقرر کر دیا ہے ۔