Site icon Daily Pakistan

عالمی پوشیدہ قوتیں موسموں کوکنٹرول کرنا چاہتی ہیں

ajaz-ahmed

گزشتہ دنوں مخکمہ موسمیات نے پیشن گوئی کی ہے کہ پاکستان میں اس سال مارچ اور اپریل کے مہینوں یعنی موسم بہار کے مہینوں میں زیادہ یعنی ناقابل برداشت گرمی شروع ہوجائے گی ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ موسم میں موجودہ تغیر قدرتی نہیں ہوگی بلکہ انسانوں کی چھیڑ خانی اور شرارت کی وجہ سے ہوگی۔جب موسم گرم ہوگا تو بجلی کا استعمال زیادہ ہوگا نتیجتاً زیادہ سے زیادہ لوڈ شیڈنگ کرنی پڑے گی۔ ساتھ ساتھ پاکستان جو دنیا میں سب سے زیادہ گلیشیر کا مسکن ہے وہ پگھلے گی جسکے نتیجے میں سیلاب آئیں گے نتیجتاً جس سے تباہی اور بر بادی ہوگی۔ پوشیدہ طاقتیں جو دنیا کو تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے انکی کوشش ہے کہ موسموں ، زلزلوں اور قدرتی آفات کو اپنے قابو میں کیا جائے ۔اور حالیہ ترک شام زلزلہ اس شرارت کی گڑی ہے ۔ موسموں میں تغیر کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہوا میں کا ربن ڈائی آکسائیڈ کا بے تحا شا اضافہ ہے۔کاربن ڈائی آکسائیڈ ایک زہریلی گیس ہے جو انسان اور ما حول کے لئے خطر ناک ہے جو درجہ حرارت زیادتی کا سبب بنتا ہے جبکہ آکسیجن وہ گیس ہے جو ہمارے زندہ رہنے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔آکسیجن انسانوں اورجانوروں کی ضرورت ہے جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پو دوں اور درختوں کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی نے اس نظام کو ایک ترتیب سے بنایا ہے ۔پودے اور درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں جبکہ آکسیجن چھوڑتے ہیں اور اسی طرح اللہ تعالی نے ہمارے زندہ رہنے کے لئے ایک بہترین نظام ترتیب دیا ہوا ہے ۔ مگر بد قسمتی یہ ہے ہم خود ما حولیات کے تباہ و برباد کرنے پر تُلے ہیں ۔درختوں کی کٹا ئی ، گاڑیوں اور کا رخانوں کا بے تحاشا دھواں ایسی عوامل ہیں جو ما حول میں کا ربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی اور آکسیجن کی کمی کا سبب بنتی ہیں۔ امریکہ کے این سی سٹیٹ یونیور سٹی کالج آف ایگریکلچر اینڈ لائف سائنسز کیرولینا کے مطابق ایک درخت سال میں 22 کلو گرام کاربن ڈائی آکسائیڈجذب کرتا ہے جبکہ سالانہ 118 کلوگرام آکسیجن چھوڑتی ہے۔علاوہ ازیں ایک درخت روزمرہ 5 لوگوں کو آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ سرکا ری اعداد وشمار کے مطا بق پاکستان میں 4 فی صد علاقے پر جبکہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جنگلات ڈھائی فی صد علاقے پر ہے۔جبکہ ایک خوشگوار اور صحت مند ما حول برقرار رکھنے کے لئے 30 فیصد جنگلات کی ضرورت ہوتی ہے۔جہاں جہاں پر جنگلات زیادہ ہیں وہاں پر با رشیں بھی زیادہ ہو تی ہیں ۔ مثلاً پاکستان کے جنگلات 4فی صد رقبے پر ہیں اور یہاں پر سالانہ 494 ملی میٹر با رشیں ہو تی ہیں جبکہ اسکے بر عکس جاپان میں 37 فی صد جنگلات ہیں جہاں پر 1690 ملی میٹر بارش، بھارت میں جنگلات کی شرخ 25 فی صد ، جہاں پر 1083 ملی میٹر با رش اور سری لنکا میں 43فی جنگلات ، با رشیں 2500ملی میٹر با رشیں ہو تی ہیں۔ قرآن مجید فُر قان حمید میں 37 مقامات پر جنگلات درختوں اور نباتات کا ذکر ہے۔ حضور ﷺ نے بھی درخت کو صدقہ جاریہ قرار دیا ہے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے سا لار لشکر اورلشکر کو درختوں، با غوں اور پو دے کے اُجا ڑنے سے منع فر مایا گیا ہے ۔ اگر ہم گلیشیر کے سُکھڑنے کا تجزیہ کریں ۔تو دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی وجہ سے پیدا ہونے والی گرمی کی وجہ سے 180میٹر کے حساب سے سالانہ گلیشیر سُکڑ یا کم ہو رہے ہیں۔ دنیا میں 433 گلیشیر کا تجزیہ کیا گیا۔ اس میں 398 گلیشیر زاپنی قد رتی مقدار سے کم ہو رہے تھے۔ گذشتہ ایک صدی میں سمندروں کی سطح میں 10 سنٹی میٹر اضا فہ ہوا۔اور اس صدی کے آخر تک دنیا کے درجہ حرارت میں 3 سے 5 درجہ سنٹی گریڈ اضافہ ہو گا۔ سمندر کی سطح میں 24 انچ اضا فہ ہوگا۔پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے چاول ، گنے اور گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی واقع ہوگی۔پانی سے بجلی کی پیداوار میں کمی اور گرم موسم کی وجہ سے بجلی کے استعمال میں اضافہ ہوگا۔ گرمی کی وجہ سے شرح اموات اور بیماریوں میں اضافہ ہوگا۔اگر ہم سائنسی نُقطہ نظر سے دیکھیں تو اسکا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے تیل، پٹرول اور جنگلات کی جگہ متبادل ذرائع توانائی کا استعمال اور جنگلات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنا شامل ہے۔مگر بد قسمتی سے پاکستان میں جنگلات کی کٹائی میں جس تیزی سے اضا فہ ہو رہا ہے ۔ اللہ نہ کرے وہ دن دور نہیں جب پاکستان بنجر اور ویران بیابان ہو جائے گا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جنگلات کی کٹائی میں کس طر ح کمی کر سکتے ہیں ۔تو اسکا ایک حل ہے کہ دیہاتی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ متبادل ذرائع توانائی جس میں پانی ، ہوا اور سورج سے بجلی بنانے اور با لخصوص دیہاتی علاقوں میں بائیو گیس کی طر ف توجہ دی جائے۔علاوہ ازیں حکومتی سطح پر زیادہ سے زیادہ درخت اُگانے چاہئے ۔ سکول اور کالج کے سلیبس میں درختوں اور جنگلات کے اُگانے کے لئے باقاعدہ چیپٹر شامل کرنا چاہئے۔درخت کاٹنے کے لئے کم ازکم 5 سال قید کی سزا ہونی چاہئے۔

Exit mobile version