Site icon Daily Pakistan

لیکشن کمیشن اور ایوان صدر میں ایک بار پھر کشید گی

idaria

سابقہ حکومت کی جانب سے الیکشن کی تاریخ دینے کا حق الیکشن کمیشن کو دیے جانے کے باوجود صدر مملکت ایک بار پھر اس بات پر بضد ہے کہ وہ الیکشن کی تاریخ دینے کا حق رکھتے ہیں ، اس حوالے سے انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کو ملاقات کی دعوت دی تھی مگر اس نقطے کی پیش نظر چیف الیکشن کمشنر نے ملاقات سے معذرت کرتے ہوئے ایوان صدر ایک خط کے ذریعے اس بات کی وضاحت د ی ہے کہ اب یہ اختیار کلی طور الیکشن کمیشن کے پاس ہے اس لیے اس ملاقات کا فائدہ نہیں ، اس پر صدر مملکت نے وزارت قانون و انصاف سے اس بات پر رائے طلب کی ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کا یہ موقف درست ہے ، آئین پاکستان ایک کھلی کتاب ہے جس میں تمام قوانین اور ضابطے درج ہیں اور ہونے والی نئی ترامیم بھی درج کرلی جاتی ہے تو پھر کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا ہے مگر پھر بھی بات الجھاو¿ کی طرف چلی جاتی ہے ، آئین کے ساتھ کھلواڑ اور آئین کا سہارا لیکر اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے ، اس حوالے سے گزارش ہے کہ آئین کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے اور اس کی عزت اور حرمت کا ہر ممکن خیال رکھا جائے ، گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی جانب سے صدر مملکت کو جوابی خط لکھا گیا ہے، جس میں چیف الیکشن کمشنر کی صدر سے ملاقات سے انکار کیا گیا ہے، جس پر ایوان صدر نے وزارت قانون و انصاف سے آئینی رائے مانگ لی ہے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو لکھے گئے جوابی خط میں الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا ہے کہ فی الحال چیف الیکشن کمشنر صدر سے ملاقات نہیں کریں گے۔ قومی اسمبلی وزیراعظم کی ایڈوائس پر آئین کے آرٹیکل 58 (1) کے تحت تحلیل ہوئی۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں ترمیم ہو چکی ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد الیکشن کی تاریخ مقرر کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ صدر آئین کے آرٹیکل کے 58 ٹو کے تحت اسمبلی تحلیل کرے تو ہی الیکشن کی تاریخ مقرر کرسکتا ہے۔ اگر اسمبلی وزیراعظم کی ایڈوائس پر تحلیل ہو تو پھر الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کو ہے۔ صدرمملکت کے خط میں اٹھائے گئے نکات موجود حالات میں لاگو نہیں ہوتے۔ وزیراعظم کی ایڈوائس کے بعد صدر کے آرٹیکل48(5) کا اختیار ختم ہوجاتا ہے۔ الیکشن کمیشن انتخابات کروانے کی ذمے داری ادا کرنے میں بہت سنجیدہ ہے۔جوابی خط میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن صدر کے دفتر کو بہت احترام دیتا ہے۔ صدر سے ملاقات باعث افتخار ہے اور مناسب وقت پر قومی معاملات پر صدر سے گائیڈنس لیں گے۔ الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ ملاقات کے نتائج معمولی ہوں گے۔ واضح رہے کہ عام انتخابات کی تاریخ سے متعلق صدر مملکت کے خط کا جواب دیتے ہوئے الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا تھا کہ قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل 58 ون کے تحت وزیراعظم کی سفارش پر صدر نے 9 اگست کو تحلیل کی، اب الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 میں 26 جون کو ترمیم کردی گئی ہے، اس ترمیم سے قبل صدر الیکشن کی تاریخ کیلئے کمیشن سے مشاورت کرتا تھا، اب سیکشن 57 میں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن کو تاریخ یا تاریخیں دینے کا اختیار ہے۔خط میں مزید کہا گیا ہے کہ صدر 58 ٹو اور 48 فائیو کے تحت اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرے تو وہ الیکشن کی تاریخ دیتا ہے لیکن اگر 58 ون کےتحت وزیراعظم کی سفارش پر صدر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ آپ کے خط میں دی گئی شرائط موجودہ صورتحال میں لاگو نہیں ہوتیں، ملک میں اس وقت حلقہ بندیاں بھی جاری ہیں، الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 17 ٹو کے تحت حلقہ بندیاں کرانے کا فیصلہ کیا۔ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور الیکشن کمیشن اس کو سنجیدگی سے لیتا ہے۔اس سے قبل صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کے فیصلے کیلئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو خط لکھا تھا جس میں چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کی تاریخ کیلئے ملاقات کی دعوت دی گئی تھی۔ادھرپی ٹی آئی کور کمیٹی اجلاس میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی امریکی سفیر سے ملاقات کا جائزہ لیا گیا جبکہ صدر مملکت سے ملاقات سے انکار کی شدید مذمت کی گئی۔کور کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا کہ سربراہ ریاست سے ملاقات سے انکار دستور کی منشا پر سنگین حملہ ہے، چیف الیکشن کمشنر نے امریکی سفیر سے ملاقات کی لیکن ریاست کے سربراہ کو انکار کیا، ان کے رویے نے قوم میں شدید تشویش کو جنم دیا ہے۔اعلامیے کے مطابق صدر سربراہ ریاست، پارلیمان کا کلیدی جزو اور افواجِ کے سپریم کمانڈر ہیں، آئین اسمبلی تحلیل کے بعد صدر کو انتخابات کی تاریخ کا اختیار دیتا ہے۔اجلاس میں کہا گیا کہ الیکشن کمشنر انتخابات 90 روز میں انعقاد سے گریز کی سازش کا مرکزی کردار ہیں، انہوں نے اپنے منصب کی ایک مرتبہ پھر توہین کی اور آئین کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے، صورتحال کا تمام پہلوں سے جائزہ لے رہے ہیں جبکہ ان کے خلاف عدالت عظمی سے رجوع بھی خارج از امکان نہیں۔دوسری جانب نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی سے وزارت داخلہ میں ملاقات کی ۔دونوں وزرا نے ملک کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات میں عام انتخابات کے حوالے سے نگران حکومت کی طرف سے الیکشن کمیشن کی معاونت کے امور پر بھی بات چیت ہوئی ۔ دونوں وزراءنے اس عزم کا اظہار کیا کہ الیکشن کمیشن کی ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کی آئینی ذمہ داری میں مکمل تعاون فراہم کریں گے ۔ وزارت داخلہ پہنچنے پر نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے نگران وزیر اطلاعات ونشریات مرتضی سولنگی کا خیر مقدم کیا۔
قومی ہیروز کے اعزا ز میں خصوصی تقریب
ریاست پاکستان کی جانب سے بٹگرام چیئر لفٹ میں پھنسے بچوں کو نکالنے والے ہیروز کی خدمات کے اعتراف میں گزشتہ روز قومی سطح پر ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں افواج پاکستان اور سول انتظامیہ کی خدمات کو بھرپور طریقے سے خراج تحسین پیش کیا گیا ، اس موقع پر بٹگرام چیئرلفٹ ریسکیو آپریشن میں حصہ لینے والوں کے اعزاز میں تقریب سے خطاب میںنگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پیچیدہ ریسکیو آپریشن کی کامیابی کیلئے بہترین حکمت عملی تیار کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے، طاقت کے زور پر اپنی بات منوانے کے خواہشمند غلط فہمی دور کر لیں ایسا کچھ نہیں ہو گا، نگراں حکومت کی ذمہ داری انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہے۔ چیئرلفٹ حادثہ کے طالب علموں کو اللہ تعالیٰ نے نئی زندگی دی ہے۔یہ واقعہ سامنے آنے کے بعد پوری قوم پریشانی اور خوف و خدشات کا شکار تھی کیونکہ ان طالب علموں کی زندگی کا معاملہ تھا۔ یہ نوجوان ہمارا مستقبل ہیں اور یہ پاکستان کا چہرہ ہیں، ہم نے مربوط انداز میں کوشش کرکے اپنے مستقبل کو بچایا، یہ بچے میرے بیٹے جیسے تھے، ان کو اس حالت میں دیکھ کر افسردگی بڑھ جاتی۔پوری دنیا کی نظریں اس بات پر تھیں کہ پاکستان اس مشکل سے کیسے نمٹے گا۔ مشکل موسم اور صورتحال کے باوجود بھرپور منصوبہ بندی اور مربوط طریقے سے آپریشن کامیابی سے مکمل کیا گیا، طالب علموں کا امداد کیلئے آنے والے فوجی جوانوں کو دیکھ کر حوصلہ بلند ہوا، یہ کامیابی ہم سب کا اجتماعی کریڈٹ ہے۔نگراں وزیراعظم انوار الحق نے بٹگرام چیئرلفٹ آپریشن میں حصہ لینے والے ایس ایس جی کمانڈوز سمیت دیگر اداروں کے اہلکاروں اور مقامی افراد میں تعریفی اسناد تقسیم کیں۔
پاک امریکا دوستی کے 75سال اور یادگاری سکے کا اجرائ
پاکستان اور امریکا کے مابین گزشتہ 75سالوں سے دوستانہ روابط چلے آرہے ہیں جس کے دوران دونوں ممالک زندگی نے تمام شعبوں میں ایک دوسرے کے بہترین تعاون روا رکھا ، اس موقع پر سٹیٹ بینک نے پاک امریکہ سفارتی تعلقات کے 75سال مکمل ہونے پر یادگاری سکہ جاری کر دیا۔اسلام آباد میں سفارتی تعلقات کی 75ویں سالگرہ پر یادگاری سکہ جاری کرنے کی تقریب منعقد کی گئی۔گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ یادگاری سکے کا اجرا دونوں ممالک کے مضبوط روابط کی عکاسی کرتا ہے، پاکستان اور امریکہ کے درمیان مضبوط تجارتی اور سماجی تعلقات ہیں، سکے کی اجرا کا عمل دونوں ممالک کی کامیاب دوستی کی ایک نشانی کے طور پر یاد رکھا جائیگا۔

Exit mobile version