Site icon Daily Pakistan

مردان ِحق

شمس تبریز ملتان پہنچے توحضرت بہاﺅ الدین زکریا ملتانیؒ نے ان کی خدمت میں دودھ کا پیالہ بھیجا تو آپ ؒنے بڑے احترام سے پیالہ لیا اور اس میں گلاب کا پھول ڈال کرحضرت بہاﺅ الدین زکریا ملتانیؒ کے خادم کو واپس کردیا۔ بعض اہل تصوف کے مطابق حضرت بہاﺅ الدین زکریا ملتانیؒ کے دودھ بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ ملتان میں اب دوسرے درویش کی گنجائش نہیں ۔اس کے جواب میں شمس تبریزؒ نے دودھ کے پیالے میں گلاب کا پھول ڈالنے کا مطلب تھا کہ وہ ملتان میں پھول بن کر رہیںگے، ان کی ذات سے کسی کو ضرر نہیں پہنچے گا۔ حضرت شمس تبریز اپنے وعدے پر قائم رہے لیکن ملتان کے لوگوں نے ان کی شدید مخالفت کی اور تنگ کیا۔حضرت شمس تبریز کوگوشت بھوننے کےلئے آگ کی ضرورت پیش آئی۔آپ نے شہزادہ محمد کو آگ لانے کےلئے بھیجا مگر پورے شہر میں کسی نے آگ نہیں دی۔ ایک سفاک شخص نے شہزادے کو اتنازیادہ مارا ،جس سے ان کا چہرہ بھی زخمی ہوگیا۔جب شہزادہ محمد واپس گیا تو سارا ماجرا سنایا ،اس پرشمس تبریزؒ جلال میں آگئے۔ آپ گوشت کا ٹکڑا لیے اپنی خانقاہ سے باہر نکلے ، آسمان کی طرف نظر کی اور سورج سے مخاطب ہوئے، ©”تُو بھی شمس! میں بھی شمس! میرے اس گوشت کے ٹکڑے کو بھون دے” اتنا کہنے کے بعد اچانک گرمی کی شدت میں اضافہ ہوگیا،حدت اتنی بڑھ گئی کہ ملتان کے لوگ چیخ اٹھے۔ ملتان کے لوگ شمس تبریز کے پاس حاضر ہوئے کہ چند نادانوں کے باعث پورے شہر کو سزا نہ دیں۔حضرت شمس تبریز نے کہا کہ یہ نادان نہیں بلکہ سفاک ہیں، آگ نہیں دیتے ہیں تو اس شہزادے کو کیوں زخمی کیا؟یہ بغداد کا شہزادہ ہے لیکن میرے لیے در در بھیک مانگنے گیا۔آپ لوگوں نے اس کا یہ حشر کیا۔ بحرحال ملتان کے لوگوں نے معافی مانگی اور آپ نے بھی ان کو معاف کیا۔لوگ ملتان کی گرمی کو اس وقوعہ کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔
حضرت شمس تبریز کا پورا نام محمد شمس الدین تھا ۔ وہ 560ھ میں سنبروار عراق میں پیدا ہوئے ۔ آپ ؒ کے والد کا نام سید صلاح الدین محمد نور بخش تھا، آپ کا سلسلہ نسبت حضرت جعفر صادق سے ملتا ہے۔شمس تبریز نے اپنے چچا عبدالہادی سے تفسیر،فقہ ،حدیث اور دیگر علوم حاصل کیے۔ 579ھ میںاپنے والد کے ہمراہ اسلام کی تبلیغ کےلئے بدخشان چلے گئے، ہزاروں افراد کو مسلمان کیا، اس کے بعد "کوچک” چلے گئے، جہاں سینکڑوں افراد نے اسلام قبول کیا۔پھر وہاں سے کشمیر کا رخ کیا،یہاں کے لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے۔ کشمیر کے لوگ حضرت شمس تبریز کے گرداکٹھے ہوتے تھے، آپ کو غور سے دیکھتے تھے،جب آپ اور آپ کے والد نماز پڑھتے تھے تو وہ بھی ان کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے،جب آپ سجدے کرتے تھے تو وہ بھی سجدہ کرتے تھے۔اس سے حضرت شمس تبریز کے والد ماجد ان کو دیکھتے تو خوش ہوتے، انھوں نے اپنے بیٹے شمس تبریز سے کہا کہ میں نے اتنی جلدی لوگوں میں تبدیلی نہیں دیکھی ۔ انھوں نے کشمیر میں ایک سال اور تین ماہ قیام کیا، اس دوران کشمیر کے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔
586ھ میں حضرت شمس تبریز ؒ اپنے والد کے ہمراہ اپنے وطن سنبراوار عراق واپس چلے گئے ،وہاں شمس تبریز کی شادی ہوئی ، آپ کے دو فرزند سید نصیر الدین محمد اور سید علاﺅ الدین احمد پیدا ہوئے۔ جب شمس تبریز بغداد گئے تو وہاں کے علماءآپ کے مخالف ہوگئے، بادشاہ بھی ان کا ساتھ دیتا تھا۔شمس تبریز کو شہر بدر کیا تو بادشاہ کا بیٹا اچانک بیمار ہوگیا اور فوت ہوگیا۔بادشاہ کو گمان ہوا کہ یہ شمس تبریز کے ساتھ بدسلوکی کے باعث ہوگیا۔ بادشاہ نے اپنے خادموں کو شمس تبریز کے پیچھے بھیج دیاتاکہ ان کو واپس لایا جائے ۔بادشاہ کے خادم ان سے ملے اور واپس جانے کےلئے استدعا کی تو آپ ؒ نے فرمایا کہ مجھے وہاں واپس لے جارہے ہو ،جہاں سے مجھے ذلیل ہوکر نکالا گیا۔ خدام کے منت سماجت کے بعد شمس تبریزواپس چلے گئے اور شاہی محل پہنچ گئے ،جہاں سب درباریوںنے کالے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔بادشاہ احترام سے پیش ہوئے اور ان کو وہاں لے گئے جہاں شہزادے کی میت تھی۔بادشاہ نے عرض کی کہ آپ کے بغداد جانے کے بعد یہ بیمار ہوگیا اور دوسرے دن فوت ہوگیا ۔ میںسمجھتا ہوں کہ یہ آپ کےساتھ گستاخی کا نتیجہ ہے۔شمس تبریز نے کہا کہ میں نے ماضی کی باتوںکو فراموش کردیا ہے ۔ اللہ اپنے رازوں کو بہتر جانتا ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ میرے بیٹے کےلئے دعاکریں کہ اس کو زیست دوبارہ مل جائے۔شمس تبریز نے آنکھیں بند کیں اور دعا کی: اے اللہ ! اگر اس لڑکے کو میری دل آزاری کے باعث موت مسلط کردی ہے تو میں اس کو معاف کرتا ہوں۔اللہ پاک اپنافضل وکرم فرما۔اس کے بعد شہزادے کے جسم کو جنبش ہوئی اور وہ اٹھا کھڑا ہوا۔ جب بغداد کے علماکو شمس تبریز کے واپس بغداد آنے اور شہزادے کے زندہ ہونے کی خبر ملی تو انھوں نے نئے منصوبوں کے ساتھ اس درویش کیخلاف صف آراءہوگئے اور کہا کہ یہ شعبدہ بازی ہے اور اسلام میں ان چیزوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ درباری بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ علماءاپنی جیبوں سے چھوٹے چھوٹے چاقو نکال کرشمس تبریز کے کپڑے کاٹ کر پھینکتے تھے اور پھر اس کے بعدجسم کی کھال کو بھی کاٹتے رہے،آپ کا جسم لہو لہان ہوگیا۔جب شمس تبریز کوشہر بدر کیا جارہا تھا تو شہزادہ محمد دوڑتا ہوا آیا اور امراءکو مخاطب ہوکر کہا کہ جس ملک میں شمس تبریز جیسے کے ساتھ ایسا کیا جائے تو وہ ایک لعنت کدہ ہے اور اس لعنت کدہ میں سانس لینا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد شہزاد محمد شمس تبریز کے ساتھ ملتان آگیا۔ ملتان کے بعد وہ قونیہ (ترکی) چلے گئے، جہاں لوگ عجیب وغریب مرض میں مبتلا تھے، ان کے جسم تڑپ رہے تھے ،ان کے ناک اور منہ سے خون بہہ رہا تھا ۔ آپ نے پانی مانگا اور وہ پانی لے آئے تو آپ نے مریضوں پر پانی کے قطرے ڈالے تو وہ اللہ پاک کے فضل وکرم سے ٹھیک ہوگئے۔ ایک دن مولانارومؒ اپنے شاگردوں کو پڑھا رہے تو آپ ؒ نے ان کی کتابوں کی طرح اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیا ہے؟ مولانا روم ؒ نے کہا کہ آپ اس کو نہیں جانتے ہیں۔شمس تبریز نے ساری کتابیںپانی کے تالاب میں پھینک دیئے تو مولانا روم نے کہا کہ اے فقیر ! آپ نے میری ساری عمر کی محنت کو ضائع کردیا ہے۔ شمس تبریز نے تالاب سے کتابیں نکالیں اورمولانا روم کو ساری کتابیںواپس کردیں ، کتابوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا ۔ بعض روایات میں الماری میں کتابوں میں آگ کا ذکر آتا ہے۔ مولانا روم نے پوچھا کہ یہ کیا ہے توآپ نے فرمایا کہ یہ آپ نہیں جانتے ہیں ۔ اس کرامت سے مولانا روم بہت متاثر ہوئے اور آپ کے گرویدہ ہوگئے۔شمس تبریزؒ نے چالیس دن مولانا رومؒ کی روحانی تربیت کی اور آپ مولانا روم کے روحانی استاد تھے۔

Exit mobile version