کوچہ صحافت میں آئے تین دہائیوں سے عرصہ گزر گیاہے اور بیت جانے والے سالوں میں نہ تو کسی کی پگڑی اچھالنے کا الزام میرے دامن پر ہے اور نہ ہی میں نے اس پلیٹ فارم کو اپنے کسی ذاتی مقصد کیلئے استعمال کیا، الحمد للہ میرا ضمیر کلی طور پر مطمئن ہے اور میںہر رات سکون کے ساتھ گہری نیند سوتا ہوں، صحافت کو ہمیشہ مقدس اور پیغمبرانہ پیشہ سمجھا ، نہ کوئی لالچ میری راہ میں رکاوٹ بنا اور نہ ہی کوئی دباﺅ مجھے جھکا سکا، البتہ ایک بات ضرور ہے کہ مفاد عامہ کیلئے شائع کی جانے والی میری خبروں اور کالموں پر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے کئی از خود نوٹس لے کر فیصلے کیے اور عوام کو ریلیف فراہم کیا، اس بات پر نازاں ہوں کہ کل کو جب روز محشر اپنے رب کا سامنا کروں گاتو اس کے سامنے اپنی صحافتی زندگی کے حوالے سے سرخرو ہونگا، یہ تمہید لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ آج میں نے مریم نواز صاحبہ کی پریس کانفرنس سنی اور خیالات کا ہجوم سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مریم نواز صاحبہ نے مسلم لیگ کے موقف کے ابلاغ میں جس ہمت جرات فصاحت اور بلاغت کا مظاہرہ کیا ہے وہ شاندار ہے۔ میاں نواز شریف یقینا اس بات پر شاد اں ہوں گے کہ پاکستانی سیاست میں خواتین کے قائدانہ کردار کی بحث اب مریم نواز صاحبہ کے بغیر ادھوری ہے۔ جس ہمت کے ساتھ وہ میدان سیاست میں بروئے کار آئیں مسلم لیگ ن کی سیاسی تاریخ کا وہ ایک اہم باب ہے۔
ایک خیر خواہ کے طور پر مجھے ان کی پریس کانفرنس سے یہ محسوس ہوا کہ اب انہیں عمران خان کی تکرار سے آگے نکل جانا چاہیے کیونکہ قومی اور ملکی مسائل بہت زیادہ ہیں۔ قیادت وہی ہوتی ہے جو سیاسی تلخیوں سے بلند ہو کر قومی مسائل پر توجہ دے۔ یہ کام عمران نہ کر سکے اور ان کی حکومت اور وزرا کارکردگی کی بجائے سیاسی حریفوں پر تبرا ہی بھیجنے میں لگے رہے۔سیاست کی مبادیات سمجھتے ہوئے امید ہے مریم نواز عمران خان والی غلطی نہیں دہرائیں گی۔ان سے بڑی امیدیں ہیں۔
مریم نواز صاحبہ کی پریس کانفرنس میں ہمارے رپورٹر نے ایک سوال کیا کہ ہمارے پاکستان گروپ آف نیوز پیپرز کے اردو اخبارات ، انگیزی اخبارات اور روز ٹی وی کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے۔اس پر مریم نواز صاحبہ نے کہا کہ ہماری حکومت آئے گی تو ہم چیزیں ٹھیک کر دیں گے۔ میرا خیال ہے میرے رپورٹر کو ایسا سوال نہیں کرنا چاہیے تھا۔وہ شاید لمحاتی کیفیت میں یہ سوال کر گئے۔ البتہ میں مریم نواز صاحبہ کا ممنون اور مشکور ہوں کہ ہمارے اور پاکستان گروپ آف نیوز پیپرز کے بارے میںخیر خواہانہ جذبات کا اظہار کیا۔
ورنہ پنجاب حکومت کی افسر شاہی کا رویہ تو ایسا ہے جیسے وہ حکم دیں گے اور ہم ہاتھ باندھے چلے آئیں گے۔ اسی لیے میں نے ڈی جی پی آر کے دھمکی آمیز فون پر(کہ آپ فلاں رپورٹر کو نکال دیں ورنہ ہم آپ کے پاکستان گروپ آف نیوزپیپرز اور روز ٹی وی کے اشتہارات بند کر دیں گے )یہ گذارش کی تھی کہ رزق دینے والے آپ نہیں بلکہ اللہ کی ذات ہے اور ہم چند لاکھ کے اشتہارات سے ادارے کو نہیں چلا رہے۔ نہ ہی اس طرح کسی کے دبا ﺅمیں کسی صحافی کو ادارے سے نکالا جا سکتا ہے۔
تاہم یہ اصولی موقف تھا اور اب بھی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی سے واقعی کوئی سنگین غلطی ہو اور اس کے خلاف ادارہ کارروائی نہ کرے۔ ہمارا اللہ کا شکر ہے اپنا ایک ضابطہ اخلاق ہے اور ہم اس پر عمل پیرا رہتے ہیں۔
کچھ دن پہلے ایک ایسا واقعہ ہوا اور میرے اخبار میں میاں نواز شریف صاحب کے حوالے سے ایک غلط اور بے بنیاد خبر شائع ہوئی۔ میں کاروباری مصروفیات میں ابھی اخبار نہیں دیکھ سکا تھا کہ مجھ سے برادر محترم عرفان صدیقی صاحب نے شکوہ کیا۔میں نے خبر دیکھی،مجھے خودبہت افسوس ہوا اور دکھ کی کیفیت نے جکڑ لیا۔میں نے فورا انکوائری کی اور جب واضح ہو گیا کہ مجرمانہ غفلت کہاں ہے تو میں نے کارروائی کرنے میں دیر نہیں کی۔ میں نے اپنے ایڈیٹر کو فارغ کر دیا۔ یہ وہ ایڈیٹر تھا جو میرے ادارے کے ساتھ پندرہ سال سے منسلک تھا۔ یہ معمولی مدت نہ تھی مگر میں اپنے اخبار کی عزت اور صحافتی اقدار پر کمپرومائز نہیں کر سکتا۔
میں نے اس اقدام کی تشہیر نہیں کی۔ بس خاموشی سے نئے ایڈیٹر کو ذمہ داریاں دیں اور ان کا نام چھپنا شروع ہو گیا۔عرفان صدیقی صاحب کو اس کارروائی کا علم تھا لیکن جناب پرویز رشید صاحب کو اس کی خبر نہ تھی۔ چنانچہ کل جب انہوں نے مجھ سے شکوہ کیا تو وہ حق بجانب تھے لیکن ان کو یہ علم نہ تھا کہ میں نے کیا کارروائی کی ہے۔پرویز رشید صاحب کا مجھے بہت احترام ہے اور اس کا اظہار میں نے ہمیشہ ہر فورم پر کیا ہے۔ ان کے شکوے نے میری تکلیف کے احساس کو پھر تازہ کر دیا۔
لیکن اس انتظامی کارروائی کے باوجودایک احساس ندامت ہے اور میں اس پر معذرت خواہ ہوں۔ میرے بزرگ جناب جنرل ہدایت اللہ خان نیازی این ایچ اے کے چیئر مین تھے اور ہمیں بتایا کرتے تھے کہ موٹر وے میں نواز شریف صاحب کیسے دیانت داری سے بروئے کار آئے۔ نواز شریف ویسے بھی ایک شریف النفس آدمی ہیں، اچھا وقت ہو یا برا، انہوں نے تہذیب اور متانت کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ ایسے آدمی کے بارے میرے اخبار میں غلط خبر بھلے ایک سطری ہی کیوں نہ ہو، ضروری تھا کہ میں اس پر کارروائی کرتا اور میں نے اپنا وہ ایڈیٹر فارغ کر دیا جو پندرہ سال سے ادارے میں کام کر رہا تھا۔ ڈی جی پی آر پنجاب کی دھمکی پر ہم رپورٹر نہیں نکالتے چاہے بلیک لسٹ ہو جائیں لیکن جب واقعتا غلطی ہو اور بڑی غلطی ہو تو اس کا مرتکب چاہے ایڈیٹر ہی کیوں نہ ہو، اس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔یہ اخلاقی تقاضا بھی ہے اور ہمارے صحافتی ضابطہ اخلاق کا تقاضا بھی۔