پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ بظاہر حکومت کے پاس ایسی کوئی حکمت عملی نہیں جس سے ملک کو اقتصادی اور سیاسی بحران سے نکالا جاسکے جبکہ معاشی حالات کے ساتھ ساتھ سیاسی نظام بھی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی فیصلے نے سیاسی مسائل میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں جس سے سیاسی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس اختلافی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے پاس بنچ بنانے کی بے لگام طاقت نے عدلیہ کا وقار مجروح کیا ہے اور یہ فیصلہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر کے فیصلے کا ہی تسلسل ہے۔ یوں ازخود نوٹس چار ججوں نے مسترد کیا جس سے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ متنازعہ ہو گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پہلے بھی کہا تھا کہ انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے اب جبکہ سول سوسائٹی نے آگے بڑھ کر تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے اپنے سیاسی مسائل خود حل کرنے کی تجویز دی ہے جس کی تمام حلقوں کو پذیرائی کرنی چاہیے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس امر پر مہر ثبت ہے کہ جب بھی سیاسی پارٹیوں نے مذاکرات کیے اس کے پاکستانی سیاست پر دور رس مثبت اثرات مرتب ہوئے۔1973ءکا آئین، میثاق جمہوریت اور اٹھارہویں ترمیم اس سلسلے میں ثبوت کے طور پر پیش کی جاسکتی ہیں۔ آج جبکہ عمران خان نے سول سوسائٹی کی طرف سے بلائی گئی اے پی سی میں شمولیت کا اقرار کر لیا ہے تو جمہوریت کی بقا کے لئے یہ ضروری ہے کہ مسلم لیگ نون ،پیپلز پارٹی اور جے یو آئی اس کانفرنس میں ضرور شرکت کریں۔دوسری طرف عمران خان اپنی سیاسی حکمت عملی میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں لیکن ان کے پاس بھی موجودہ سیاسی اور اقتصادی بحران سے نکلنے کا کوئی پلان نہیں ہے جبکہ پی ڈی ایم کے پاس بھی کوئی سیاسی حکمت عملی دکھائی نہیں دے رہی اور نہ ہی وہ خان کی ابھرتی ہوئی عوامی پذیرائی کے مقابلے میں کوئی حکمت عملی اپنا سکے ہیں ۔ایسے حالات میں جبکہ معیشت کی حالت دگرگوں ہے اور حکومت کو غیر روایتی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔حال ہی میں چین نے خاموشی کے ساتھ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بحال کروا دیے جس سے اس خطے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ چین اس کے علاوہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کے لئے بھی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان میں مقیم بھارتی ناظم الامور نے لاہور میں سینئر صحافیوں اور چیمبر آف کامرس کے تاجروں کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے یہ مثال دی کہ پاکستان میں پیاز کی قیمت 300روپے فی کلو ہے جبکہ نئی دلی میں یہی پیاز20 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گجرانوالہ پہلوانوں کا شہر ہے دونوں ملکوں کے درمیان کشتی اور کبڈی کے مقابلے ہونے چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت بحال کی جائے اور بھارت کی مصنوعات کی وسطی ایشیا تک رسائی کےلئے پاکستان کے درمیان تجارت بحال کی جائے اور بھارت کی مصنوعات کی وسطی راہداری مہیا کی جانی چاہیں ۔ یاد رہے کہ افغانستان کے ایک سابق مصور نے کہا آج کے غیر معمولی معاشی اور سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو فوری طور پر بھارت کے ساتھ تجارت اور اس راہداری کو کھول دینا چاہیے اگر پاکستان ہندوستان کو سنٹرل ایشیا تک تجارتی راہداری مہیا کرے تو اسے سالانہ پندرہ بلین ڈالر سے زیادہ کا فائدہ ہو سکتا ہے۔آج کے غیر معمولی معاشی اور سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو فوری طور پر بھارت کے ساتھ تجارتی اور اس راہداری کو کھول دینا چاہیے ۔یاد رہے کہ ہندوستان اور چین شدید سرحدی تنازعات کے باوجود 120ڈالرز کی تجارت کر رہے ہیں جس کا فائدہ چین کو ہو رہا ہے۔ وہ کیا وجہ ہے کہ بھارت امریکی کیمپ میں ہونے کے باوجود چین سے خسارے کی تجارت کر رہا ہے؟ ہمیں ان عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی 75سالہ عداوتوں کو بھول کر آنے والی نسلوں کے لئے سوچنا ہوگا۔ بھارت کے ناظم الامور نے کہا کہ بھارت نے کبھی پاکستان کے ساتھ تجارت کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ پاکستان نے خود ہندوستان کے ساتھ تجارت پر پابندیاں عائد کیں پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس کا جغرافیائی محل وقوع اور لیبر فورس کا تقریباً 60 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ آج سارک ممالک کی آبادی ڈیڑھ ارب سے زائد نفوس پر مشتمل ہے اور یہ خطہ اب تک اپنے غریب عوام کو اقتصادی ثمرات فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ پاکستان پر بھی ہر سال 35لاکھ سے زائد نئے نوجوانوں کا بوجھ پڑ رہا ہے جن کے لیے روز گار کے مواقع کسی بھی صورت مہیا نہیں کیے جا سکتے۔ ان نامساعد حالات میں ہندوستان کے ساتھ ہمارے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ ہندوستان کی معیشت مسلسل ترقی کر رہی ہے اور پاکستان سے راہداری نہ ملنے کے باوجود ترقی کی راہ پر گامزن رہے گی۔ کسی بھی ملک کی قومی سلامتی کا انحصار اس کے عوام کی صحت، تعلیم ، مجموعی خوشحالی اور سیاسی شعور پر ہوتا ہے نہ کہ اسلحے کے انبار پر۔ یاد رہے کہ یورپین قوموں نے دوسری جنگ عظیم میں ہولناک تباہیوں کے باوجود امن و آتشی کی ایسی فضا پیدا کی کہ انہوں نے اپنی سرحدیں ختم کر دیں اور دنیا کو جدید فلاحی ریاستوں کا انمول نمونہ پیش کیا۔ ہمیں بھی یہ سوچنا ہوگا کہ ہم وراثت میں ملی ہوئی اپنی سرزمین پر کس طرح امن اور خوشحالی کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں لیکن بھارت کے ساتھ نفرت اور جنگ ہمیں کسی منزل پر نہیں پہنچا سکتی۔
معاشی اور سیاسی حکمت عملی کافقدان
