ملک کوبحرانی کیفیت سے نکالنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی،ہر روز کوئی نیا تنازعہ یا بحران سامنے آ رہا ہے،یہ تنازعات یا بحران اتفاقی حادثاتی نہیں بلکہ منصوبہ بندی کار فرما نظر آتی ہے،یہ بدترین صورتحال جہاں جمہوریت کو نقصان پہنچا سکتی ہے وہاں ملکی معیشت کو ڈبو سکتی ہے۔آئی ایم ایف جس سے اہم نے ساری امیدیں جوڑ رکھی ہیںاس نے کسی حد تک امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے، کہ وہ پہلے اپنے دوست ممالک سے مدد لے جبکہ دوست ممالک بھی آئی ایم ایف کی طرف دیکھ رہیں اور تذبذب کا شکا ر ہیں،بدقسمتی سے موجودہ حکومت کی ساری توجہ سابق حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے پرلگی رہی مگر گزشتہ گیا رہ ماہ ڈوبتی معیشت کو سنبھالنے کی ٹھوس کوشش نہ کی گئی۔اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ سر چڑھ کر بولنے والے بحران کوئی نیک شگون نہیں ہیں۔اس ضمن میں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔صدر مملکت جو ملک کے بڑے آئینی عہدیدار ہیں ،انہیں بھی تشویش لاحق ہے کہ اکتوبر میں بھی الیکشن کا انعقاد خطرے میں نظر آرہا ہے۔ صدر عارف علوی نے ایک نجی میڈیا ٹی وی کو انٹرویومیں اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی ہے کہ چیف جسٹس کا اختیار محدود کرنے کی ٹائمنگ سوالیہ نشان ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023پر سپریم کورٹ کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، بل پر دستخط کرنے کا فیصلہ اس وقت کروں گا جب یہ میرے پاس آئے گا، دعا ہے کہ ججز آپس میں اشتراک پیدا کریں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اکتوبر میں انتخابات کے اعلان کے حوالے سے صدر عارف علوی کا کہنا تھا اکتوبر میں بھی الیکشن کا انعقاد خطرے میں نظر آرہا ہے ۔تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ میں نہیں سمجھتا کہ مارشل لا کا خطرہ ہے۔میں لوگوں کے تبصرے اس پر سنتا رہامجھے خیال آتا ہے کہ ٹائمنگ بہتر ہوسکتی تھی یا تو پہلے ہوجاتا یہ بحران کے اندرٹائمنگ کے اندر سوالیہ نشان ضرور ہے۔میں سمجھتا ہوں could have been betterمگر میں نے عام طو رپر لوگوں کا تجزیہ یہ سنا کہ کچھ نہ کچھ اس کو اسٹریم لائن کرنے کی ضرورت ہے ۔ سپریم کورٹ جس طرح سے اپنے آپ کو چلاتی ہے اس سلسلے میں بہت ساری رائے سپریم کورٹ کے اندر سے آئی اور کافی دنوں سے یہ ڈسکشن ہورہا ہے ۔ تووہ اپنے اعتبار سے ان کو بھی اعتماد میں لے کر یہ معاملات کر لینا چاہئیں ۔انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کے اندر جب زور زبردستی کے ساتھ کوئی چیزکی جاتی ہے تو اس کے اندر بہت زیادہ سوالیہ نشان پیدا ہوجاتے ہیں۔ جو ترقی یافتہ جمہوریت ہیں ان کے اندرpersonسے اختلاف کرلیا جاتا ہے یا reasonable consensus یعنی100فیصد consensus توووٹنگ پیٹرن کے اعتبار سے چاہے کانگریس ہو چاہے پارلیمنٹ ہوتو100فیصد consensusنہیں آتا۔ بہت ساری چیزوں کو consensusٹائمنگ کے حوالے سے یا ان کی شقوں کے حوالے سے یا سپریم کورٹ کے ساتھی یہ گفتگوہے تو ان کے ساتھ بھی مشاورت کسی نہ کسی انداز سے ہوجائے تو اچھا ہے۔ عارف علوی نے کہا کہ میں نے اس کو ابھی دیکھا نہیں ہے میں نے ابھی پڑھ دیا ہے جو ڈرافٹ ہے کل پرسوں پڑھ لیا تھا۔ اس کے اندر کیاترمیم ہوتی ہیں تو یہ پری میچور ہوگاکہنا کہ کیا کروں گا میں۔مگر یہ کہ اس کی فائنل فارمیٹ جب آجائے گی وہ اچھا وقت ہوگا کہ صحیح فیصلہ کرلیا جائے۔ البتہ میں بھی جس ملک کے اندر اتنے بحران چل رہے ہوں اس کے اندر میں بھی ایک مثبت رول ادا کرنا چاہتاہوں ۔ بحران پیدا نہیں کرناچاہتا solving mode کے اندر ہوں جبextreme positions ہوں توcrisis solving بھی بڑی مشکل ہوتی ہے۔ اس میں جو بھی آپ بات کہیں وہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی اعتبار سے متنازع بن جاتی ہے۔ اگر میری کوئی رائے ہے تو یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی رائے ہے حالانکہ میں اپنی طرف سے پوری کوشش کرتا ہوں کہ غیر جانبدار ہوکر اپنی بات رکھوں جس بات کی ضرورت ہے وہ رکھی جائے۔ صدر مملکت کی تشویش اپنی جگہ اہم ہے لیکن بدقسمتی سے سیاسی قیادتیں دوراندیشی سے کام لینے کی بجائے وقتی مفادات کو اولین ترجیح دیتی ہیں،جس سے مسائل کا حل آسانی سے نہیں مل پاتا۔
آئی ایم ایف کی نامناسب کڑی شرائط
پاکستان اس وقت مشکل معاشی حالات کا شکار ہے جس کا اثر مہنگائی کی صورت میں عوام پر پڑرہا ہے۔آئی ایم ایف کی شرائط کو پوراکرتے ہوئے موجودہ حکومت نے حالیہ عرصے پر پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے ساتھ بجلی،گیس کے نرخوں میں بے تحاشہ اضافہ کیامگر حکومت نے عام آدمی پربوجھ کم کرنے کےلئے موٹرسائیکل اورچھوڑی گاڑی استعمال کرنے والوں کوپٹرول پر سبسڈی دینے کااعلان کیا جس پرآئی ایم ایف نے اعتراض اٹھادیا۔یہ سوالات بھی جنم لے رہے ہیں کہ آیا اتحادی حکومت پٹرول پر سبسڈی دینے کا سیاسی فیصلہ کر رہی ہے جو ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے یا پھر یہ واقعی ایک قبل عمل منصوبہ ہے جو غیر معمولی مہنگائی کی لہر میں عوام کو کچھ ریلیف فراہم کر سکے گا۔دوسری جانب آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے اس نئے منصوبے کے اعلان سے قبل ان سے مشاورت نہیں کی۔ایسے میں آئی ایم ایف کسی نئی حکومتی سکیم پر اعتراض کر سکتا ہے اور قرضہ بحالی کا پروگرام مزید تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط بہت سخت ہیں تاہم ان شرائط کے مانے بغیر پاکستان کےلئے قرضہ پروگرام کی بحالی ممکن نظر نہیں آتی۔پاکستان جن حالات کا شکار ہے اس میں آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں کیونکہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے بعد ہی پاکستان کےلئے بین الاقوامی سطح پر منجمد بیرونی فنانسنگ کی آمد ممکن ہو سکے گی۔ملک کی خراب معاشی صورتحال اور اس کی وجہ سے عوام کےلئے بڑھتی ہوئی مشکلات پر موجودہ اتحادی حکومت جس کی سربراہی مسلم لیگ ن کر رہی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کے درمیان الزام تراشی کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے جس میں ایک دوسرے کو ملک کی خراب معاشی صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔موجودہ حکومت کی جانب سے سابقہ حکومت پرآئی ایم ایف کے ساتھ کیے جانے والے وعدوں کی پاسداری نہ کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے عالمی ادارے نے ابھی تک پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط جاری نہیں کی جس نے پاکستان کےلئے بیرونی ادائیگیوں کے شعبے کو سنگین مشکلات سے دوچار کر دیا اور ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تسلسل سے کمی دیکھی جا رہی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے موجودہ حکومت پر صرف گیارہ ماہ میں معیشت کو خراب کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے ۔ دراصل خراب معاشی صورتحال کی سب سے بڑی وجہ حکومت اوراپوزیشن کے درمیان غیریقینی سیاسی صورتحال ہے۔گزشتہ روز عالمی مالیاتی ادارے نے پٹرول پر مجوزہ سبسڈی کی ابتدائی تجویز مسترد کر دی۔ آئی ایم ایف نے حکومت کی جانب سے موٹر سائیکل اور 800سی سی سے کم گاڑیوں کےلئے سستے پٹرول کی اسکیم پر شدید اعتراض کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے سوال اٹھایاکہ اس اسکیم کےلئے کتنی سبسڈی درکار ہوگی؟ وہ کہاں سے آئےگی اور اس کے کتنے کنزیومر ہوں گے؟ اسکیم میں کتنا نقصان ہوگا؟ آئی ایم ایف نے اس حوالے سے حکومت سے مکمل پلان مانگ لیا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ورچوئل رابطہ ہوا جس میں آئی ایم ایف نے پٹرول پر سبسڈی کا نظرثانی شدہ پلان تیار کرنے پر زور دیا جبکہ آئی ایم ایف غریب طبقے کو زیادہ موثر ٹارگٹڈ سبسڈی دینے پر زور رہا ہے۔دوسری جانب عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں اتار چڑھاﺅ جاری ہے جس کے باعث پاکستان میں یکم اپریل سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بھی کمی کا امکان ہے۔آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا تخمینہ ہے کہ ملک میں ڈیزل کی قیمت میں 15 سے 20روپے فی لیٹرکمی کا امکان ہے جبکہ پٹرول کی قیمت 4سے 5روپے فی لیٹر تک کم ہو سکتی ہے ۔ یقیناآئی ایم ایف کی مدد حاصل کرنا کسی ملک کےلئے معاشی طور پر کسی ڈراﺅنے خواب سے کم نہیں کیونکہ معاشی استحکام کےلئے آئی ایم ایف جو اقدامات تجویز کرتا ہے ان کی بنیاد سخت معاشی اصلاحات پر ہوتی ہے جس سے غریب اور متوسط طبقے کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے لیکن آئی ایم ایف کے علاوہ بھی ہمیں اپنے بل بوتے پر ترقی کرنے کا کوئی منصوبہ بنانا ہوگا۔