Site icon Daily Pakistan

مودی بھارت کو ایک جماعتی ریاست بنانا چاہتے ہیں

riaz chu

امریکی اخبارنے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت کو آہستہ آہستہ یک جماعتی ریاست کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے بھارت 2024ءکے عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ملک کے جمہوری اداروں پر گرفت مضبوط ہو رہی ہے۔ اگرچہ اسے ملکی عدلیہ سے تھوڑا سا جھٹکا لگتا ہے لیکن بھارت کے سیاسی تجزیہ کار، سفارت کار اور سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ مودی کی پارٹی اپنے تحفظ کے لیے عدالتوں پر انحصارکرتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مودی جتنے چیلنجز کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ راہول گاندھی کے معاملے پر کانگریس اور اپوزیشن پارٹیاں اب احتجاج کر رہی ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ میں مختلف مناظر دیکھے گئے۔ راہل کی سزا سے یہ پیغام جا رہا ہے کہ مودی حکومت انہیں پارلیمنٹ سے بے دخل کرنا چاہتی ہے اور آنے والے سالوں میں انہیں الیکشن لڑنے سے روکنا چاہتی ہے۔
فلاحی سکیمیں زیادہ تر وزیر اعظم کے نام پر ہیں جن کی بہت زیادہ تشہیر کی جاتی ہے۔ کچھ ججز، یا سپریم کورٹ کے کچھ ججوں کو حکومت کے ساتھ بہت نرمی برتتے دیکھا گیا۔ ان کے فیصلے یا تو حکومت کے حق میں ہوتے ہیں یا پھر کچھ ججوں کے فیصلوں نے مودی حکومت کو اہم آئینی چیلنجوں سے بچا لیا۔ ایسے ججوں کو پارلیمنٹ میں نشست سے نوازا گیا، جب کہ کچھ کو کمیشن میں عہدہ یا کسی ریاست کا گورنر بنا کر نوازا گیا۔ جنہوں نے تھوڑی سی بھی آزادی دکھانے کی کوشش کی، انہیں تبادلوں اور کیریئر میں جمود کا سامنا کرنا پڑا۔ مودی سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف شکایات درج کی گئیں اور انہیں عدالتی مقدمات میں پھنسایا گیا جو برسوں تک چلے۔ بعض اوقات کچھ شکایتیں کاپی پیسٹ کی نظر آتی ہیں، سب کی ایک ہی شکایت۔ میڈیا بڑی حد تک بزدل ہو چکا ہے۔ سول سوسائٹی سے اختلاف کرنے والوں کو ہراساں یا خاموش کر دیا گیا ہے۔ اہم پالیسیوں پر پارلیمانی بحث ختم ہوچکی ہے۔ تاہم بی جے پی نے بار بار اس بات سے انکار کیا کہ ان کا عدالتی نظام پر کوئی اثر ہے۔
بھارت میں ہندو انتہا پسندی نے بربادی پھیلا رکھی ہے۔ نہ مسلمان محفوظ نہ عیسائی محفوظ نہ سکھ محفوظ اور نہ نچلی ذات کا ہندو محفوظ۔ ہر عام شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ دنیا بھر کے آزاد ماہرین اور میڈیا کی رپوٹیں اس بات کی تصدیق کررہی ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی دنیا کے امن کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ مودی حکومت کے چند سالوں میں مذہبی تفریق اس قدر بڑھ چکی ہے جو پہلے کبھی نہ تھی۔ نیا بھر کے امن پسند ممالک ،تنظیمیں اور دانشور اس بات کا بھر ملا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی صرف اس خطے کیلئے خطرہ نہیں بلکہ اگر اس دہشت گردی اور انتہا پسندی کو نہ روکا گیا تو دنیا کا امن خطرے میں پڑہ سکتا ہے۔ دنیا بھر میں تو انتہا پسند جماعتوں پر پاپندی لگا کر امن کیلئے کوششیں ہو رہی ہیں لیکن بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی انتہا پسند جماعت بر سر اقتدار ہے اور اسی جماعت کے رہنما جنہیں گجرات کے قصائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ بھارت کے وزیر اعظم ہیں۔
ہندو انتہا پسندوں کا حدف صرف مسلمان اور سکھ نہیں نچلی ذات کے ہندو اور مسیحی بھی نشانے پر ہیں۔ مدھیہ پردیش، کیرالہ، کرناٹکہ، اوڑیسہ، گجرات میں مسیحیوں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے۔ وشواہندو پریشد کے غنڈے مسیحی آبادیوں پر حملے کر رہے ہیں اور چرچ اور مسیحیوں کی املاک کو تباہ کر رہے ہیں مگر ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔ 2014 میں عین کرسمس کے دن کھرگون، کھنڈوا اور ہرہانپور کے مسیحیوں پر منظم حملے کئے گئے۔ کشمیری مسلمانوں کا قتل عام ساری دنیا دیکھ رہی ہے مگر پوری دنیا کے ممالک نے آنکھیں بند کیں ہیں۔
نریندر مودی کی حکومت نے قومی و ریاستی سطح پر ایسے قوانین کا اجرا کیا ہے، جن سے انتہاپسندی کو تقویت مل رہی ہے۔ جیسے کہ مویشیوں کی تجارت پرپابندی عائد کردی گئی ہے۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ تاج محل” بھارت کی تہذیب و ثقافت “کی نمائندگی نہیں کرتا، کیوں کہ یہ سترہویں صدی میں ایک مسلمان بادشاہ نے اپنی بیوی کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ بعض اقلیتی اور سیکولر طبقے خوفزدہ ہیں کہ بھارت کی سالمیت خطرے میں ہے۔
مودی کی اس انتہا پسندی پر عدم توجہی کی ایک وجہ وہ دباو¿ ہے جو ان پراس بنیاد پرست ہندو تنظیم کی جانب سے ہے جس سے وہ خود تعلق رکھتے ہیں۔ مذہبی ہندو انتہا پسندوں نے پچھلی دہائیوں میں سیکولر طبقے کے خلاف جدوجہد کے ذریعے اپنے آپ کو مستحکم کیا اور انہوں نے مودی کی انتخابی مہم میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اب وہ اپنا حصہ لینا چاہتے ہیں۔
یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بھارت اس وقت مکمل انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں جا چکا ہے اور بھارت کا سیکولرزم کا چہرہ مسخ ہو چکا ہے۔ حیرت ہے کہ پوری دنیا کو پرامن بنانے کی جدو جہد کا دعوی کرنے والا ملک امریکہ جس نے کل تک تو نریندر مودی کو اس کی انتہا پسندی کی بنا پر امریکہ کا ویزا دینے سے انکار کیا تھا آج وہی امریکہ بھارت کے کہنے پر کشمیر میں آزادی کے جدو جہد کرنے والے فریڈم فائٹر سید صلاح الدین کو دہشت قرار دیتا ہے۔ دنیا کا امن اسی صورت قائم رہ سکتا ہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے جن کو بوتل میں بند کیا جائے۔

Exit mobile version