تبادلوں،گرفتاریوں،پرچوں،چھاپوں،دھمکیوں،الزام تراشیوں کا موسم عروج پر ہے۔ڈالر کی طرح اب سرکاری افسری بھی اوپر نیچے چل رہی ہے صبح دفتر آکر پتہ چلتا ہے کہ وہ کہاں تبدیل کر دیا گیا ہے جبکہ سیاسی ماحول بھی گرم سے گرم تر ہوتا جا رہاہے۔الیکشن کا مطالبہ زورپکڑرہا ہے تو حکومت بھی الیکشن وقت پر کرانے یا پھر پہلے ملکی معیشت کے ٹھیک ہونے تک پرمعاملہ کو ٹال رہی ہے۔اس سیاسی کشمکش سے بہت سے ذخیرہ اندوز اورگراں فروش خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں اشیائے خوردونوش کے نرخ صبح کچھ ہوتے ہیں تو رات کو کچھ اورہی ہو چکے ہوتے ہیں۔قیمتوں میں اس تیز رفتار بلکہ بے لگام اضافوں نے عام آدمی کی مت ماردی ہے۔وہ جنہیں دووقت کی روٹی دستیاب ہوتی تھی اب ایک وقت پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔حکومت اورعمران خان کے اس دنگل میں جرائم پیشہ بھی آزاد ہو چکے ہیں۔نان سٹاپ ڈکیتیاں ، چوریاں،راہزنی اورسڑکوں پر دن دیہاڑے لوٹ مار کی وارداتوں نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اور الزام پولیس پر آرہا ہے کہ وہ جرائم کنٹرول کرنے میں ناکام ہے جبکہ پولیس والے خودحیران ہیں کہ یہ چوروں،ڈاکوں اور راہزنوں کی نئی کھیپ کہاں سے آگئی ہے ۔ پہلے جرائم پیشہ افراد کا تھانوں میں ریکارڈ ہوتا تھا۔علاقے کا افسر جانتا تھا کہ واردات کس گروہ نے کی ہے اور وہ اپنے تجربے ، ریکارڈ تھانہ اورمعلومات کی روشنی میں مجرموں تک پہنچ بھی جاتاتھا۔مگر اب جرم کرنے والوں میں زیادہ تربیروزگار اور ضرور ت مند حالات کے ستائے ہوئے لوگ شامل ہوگئے ہیں جو پیٹ کی بھٹی کو ایندھن فراہم کرنے کےلئے جرم کی طرف مائل ہورہے ہیں جبکہ حالات کے ستائے ہوئے بعض کمزور دل دلبرداشتہ ہوکر خودکشیوں میں عافیت محسوس کر رہے ہیں ۔ نوشہرہ فیروز ڈسٹرکٹ جیل کے قیدی عبدالمجیدعمرانی کو منشیات کے ایک مقدمہ میں چھ ماہ کی قید بھگت کر جیل سے رہا ہونا تھااسکے رشتہ دار عزیز اسے لینے کیلئے آئے جیل حکام نے اسے باہر نکالامگرعبدالمجید نے یہ کہہ کر گھر جانے سے انکار کر دیا کہ باہر بہت مہنگائی ہے مجھے یہیں رہنے دوکم ازکم دووقت کی روٹی تو ملتی ہے۔یہ کہانی کوئی ایک عبدالمجیدہی کی نہیں یہاں ہر بندہ ہی رزق روٹی کے لئے پریشان ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ چندماہ میں ایسا کونسا جن وطن عزیز میں پھر گیا ہے کہ اشیائے خوردونوش سے لیکر دیگر تمام ضروریات زندگی تک سب کچھ مہنگا ہوگیاہے اوروہ جو گزشتہ حکومت میں ہونے والی مہنگائی پر واویلا کرتے عوام کی حالت زارپر پریشان ہوتے اور مہنگائی ختم کرنے کا نعرہ لگا کر حکومت میں آئے تھے وہ کدھر ہیں۔عام آدمی حکومت سے سوال کر رہا ہے کہ غور کریں دیکھیں اپنے ماہرین کو بلوائیں اوراس نا قابل برداشت مہنگائی کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کریں کہ ہمارے ساتھ کوئی عالمی سازش تو نہیں ہو رہی کہ سب کچھ ہوتے ہوئے عوام کو بھوکاماراجائے یا پھر یہ کوئی سیاسی انتقام تو نہیں لیاجا رہاعوام سے کہ انہیں جمہوریت سے دورکر دیا جائے یاپھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی طاقت حکمرانوں کےلئے عوامی نفرت کا مخاذ بنانے میں مصروف ہے اور یا پھر حکمران ہی عام آدمی کی حالت سے بے خبر ہوکر حکمرانی کا نیا تجربہ کرنے میں مصروف ہیں۔معاملہ کچھ بھی ہو الیکشن وقت پر ہوں یا اوقت سے پہلے منظر اقتدار پرکچھ تبدیلیاں آئیں یایہ منظر ہی قائم رہے عوام کی حالت کو دیکھنا انکے لئے زندہ رہنے کیلئے سہولیات فراہم کرنا یاپھرانکی زندگی کو اسان کرنا حکمرانی کا پہلافرض ہے۔ابھی تو عالمی مہاجنوں سے ہمارا معاہدہ بھی نہیں ہوا تو صورتحال اس قدرسنگین ہے اوراگر یہ معاہدہ ہو جاتا ہے تو پتہ نہیں کتنے اور خون چوسنے کے شکنجے ان مہاجنوں کی فرمائش پر ہمارے لئے تیار ہونگے۔اشیائے خوردونوش کی قیمتیں اور کتنی اوپرجائیں گی اور پیٹرولیم مصنوعات بجلی گیس کے نرخ کہاں پرواز کریں گے۔کتنے اورسفیدپوش اپنی سفید پوشی کی چادر پھاڑ کرغربت کی دلدل میں گریں گے ۔ اس بارے وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا اور وثوق کیساتھ یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ انتخابات کے بعد آنے والی حکومت اس بیروزگاری غربت افلاس مہنگائی کا خاتمہ کرسکے گی یا پھر اقتدار کے ایوانوں میں بس چہروں کی تبدیلیاں ہی ہونگی اورعام آدمی کی مصیبتیں پریشانیاں یہیں رہیں گی ہاں البتہ ایک بات ضرور ہے کہ اگر سیاست کے میدان میں زندہ رہناہے تو عام آدمی کے حالات کو سنوارنا ہوگا ورنہ عام آدمی جس خطرناک موڑ پر پہنچا دیا گیا ہے اسکے بعدانقلاب کی منزل ہوتی ہے جس پر پہلاقدم رکھتے ہی چشم زدن میں تہہ وبالا کا مقام آتاہے جو سب کچھ خش وخاشاک کی طرح بہالے جاتا ہے لیکن یہ بھی توہوسکتا ہے کہ حکمران اپنی پالیسیوں پروگراموں میں ایسی زبردست تبدیلیاں لے آئیں اور اپنی تمام ترتوانائیاں عوام کی حالت زارکوبدلنے پرلگاکر پھرسے ایک خوشخال پاکستان بناکر عوام کے دل جیت لیں۔لیکن اس کےلئے اشرافیہ کو اپنی عیاشیاں ، پروٹوکول بھی ختم کرناہوگا اور وزیراعظم کو بھی اپنی کابینہ میں آئے روزوزیروں مشیروں میں اضافوں والی پالیسی کو بھی بریک لگانا ہو گی۔