ریاست کی بنیادی کنجی یا کامیابی کا نکتہ اس کے داخلی استحکام کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ داخلی استحکام ہی عملی طور پر اسے علاقائی اور خارجی محاذ پر موجود مسائل سے نمٹنے کی حقیقی طاقت فراہم کرتا ہے – سیاسیات میں ایک عمومی تھیوری یہ دی جاتی ہے کہ جو بھی ریاست اپنے داخلی مسائل کے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہی اپنے خارجی مسائل سے نمٹ کر بہتری کا محفوظ راستہ تلاش کرنے کی بھی صلاحیت قائم کرسکتی ہے۔ہمارے فیصلہ ساز افراد یا ادارے اگرچہ داخلی استحکام کی بات تو بڑی شدت سے کرتے ہیں مگر عملی طور پر ان کا طرز عمل یا اقدامات کی نوعیت داخلی مسائل سے نمٹنے میں عدم دلچسپی کی ہوتی ہے۔ ملک کے تمام سیاسی قائدین’ دانشور’ تجزیہ نگار اس نکتہ پر متفق نظر آتے ہیں کہ ہمارے تمام مسائل کی جڑ سیاسی عدم استحکام ہے- پوری دنیا ہمیں سمجھا رہی ہے کہ آپ کو اپنے مسائل حل کرنے کےلئے سیاسی استحکام چاہیے – ملک کو درپیش مشکلات’ مسائل اور بحرانوں سے نمٹنے کےلئے بر وقت انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے-نگران وزیر اعظم کا تین سے چار میں عام انتخابات کے انعقاد کا عندیہ خوش آئند ہے- آئین بھی اس حوالے سے بڑا واضح ہے اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد90روز میں انتخابات ناگزیر ہیں جن کی تعمیل ہی آئینی بالادستی اور جمہوریت کا اصول ہے-جمہوری روایت کا استحکام آئینی عمل داری کے بغیر محض خیال وخواب ہے اور جمہوری روایات کا احترام کرنےوالے معاشروں میں انتخابات کے حوالے سے آئینی تقاضوں پر انتہائی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بنایا جاتا ہے- پاکستان میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا خاتمہ ہی ملکی معیشت کو بہتر سمت میں گامزن کرسکتا ہے-لہذا ملک کے مفاد کا تقاضا ہے کہ نگران حکومت اپنی تمام تر توجہ ملک میں بر وقت اور فوری عام انتخابات کی تیاری پر صرف کرے اور تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے اس ضمن میں اس کے معاون و مدد گار بنیں-ملک کی ترقی، سلامتی اور خودمختاری پوری قوم کا مسئلہ ہے اور ہمیں یہ سبق اجتماعی طور پر سوچنا ہوگا کہ ہم کیسے اپنی ماضی او رحال کی غلطیوں یا دنیا کے تجربات سے سیکھ کر اپنے قومی ایجنڈے کو ایک نئی جہت دیں۔ اس کےلئے ہمیں داخلی مسائل سے نمٹنے کےلئے ایک مشترکہ ایجنڈا درکار ہے اور یہ ہی ہماری قومی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے جہاں سب فریقین اپنے اپنے سیاسی اور قانونی یا آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے پاکستان کے مفاد کی جنگ لڑیں او ریہ ہی جنگ ہم سب کی اپنی جنگ ہونی چاہیے۔ ملک کو موجودہ معاشی واقتصادی بحران سے نکالنے کے لئے قلیل المدتی اور طویل المدتی پالیسیاں بنانی پڑیں گی قلیل المدتی پالیسی میں ہمیں اپنا مالی خسارہ کم کرنا پڑے گا جس کے لئے حکو متی اخراجات کو کم کرنا ہوگا جبکہ جو سرکاری ادارے نقصان میں چل رہے ہیں اور سرکار ان کو زندہ رکھنے کے لئے اربوں روپے دے رہی ہے ان کی یا تو نجکاری کرنی ہوگی یا انہیں منافع بخش بنانا ہوگا-پاکستان کو مختلف شعبوں میں بہتر درجہ بندی حاصل کرنے کےلئے معیشت کی تنظیم نو کرنا ہوگی خصوصا ٹیکسوں اور توانائی کے شعبے میں علم پر مبنی معیشت اپنا نا ہوگی- یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ملک میں بیشتر اہم معاشی ومالیاتی پالیسیاں طاقتور طبقوں کے مفاد میں یا ان کے دباﺅ پر بنائی جاتی ہیں خواہ اس کےلئے قانون سازی کرنی پڑے یا قانون کو توڑنا پڑے-ان نقصانات کو پورا کرنے کےلئے عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے’ ترقیاتی اخراجات وانسانی وسائل کی ترقی کےلئے کم رقوم مختص کی جاتی ہیں اور ملکی وبیرونی قرضوں پر بے تحاشا انحصار کیا جاتا ہے- یہی نہیں طاقتور طبقوں بشمول ٹیکس چوری کرنے والوں’ قومی دولت لوٹنے والوں’ بینکوں سے اپنے قرضے غلط طریقوں سے معاف کرانے والوں’ پاکستان سے لوٹ کر یا ناجائز طریقوں سے حاصل کی ہوئی رقوم سے ملک کے اندر اثاثے بنانے یا ملک سے باہر اثاثے منتقل کرنے والوں کے مفادات کا تحفظ حکومت اور ریاستی اداروں کی جانب سے کیا جاتا رہا ہے-آج بھی ایک روپیہ قومی خزانے میں جمع کر وائے بغیر ناجائز دولت کو قانونی تحفظ دینا ممکن ہے- عالمی مالیاتی ادارے تواتر کے ساتھ زراعت اور توانائی کے شعبے میں ٹارگٹڈ سبسڈی سمیت ایگری فوڈ سسٹم، شہری سہولیات اور توانائی کے شعبے میں بہتری کی اشد ضرور ت کو اجاگر کر رہے ہیں-ملک میں گزشتہ کئی برسوں سے اختیار کی جانے والی پالیسیوں کا ہدف عوام سے زیادہ چند گنے چنے سرمایہ داروں کا مفاد رہا ہے ملک میں زیادہ تر آبادی کا ذریعہ معاش زراعت ہے-حکومتوں نے زرعی شعبے کے ساتھ مجرمانہ غفلت کی مسلسل پالیسی اختیار کر رکھی ہے- ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کا شمار زرعی ممالک میں ہوتا ہے ہماری مٹی بہت زرخیز ہے-زرعی شعبے میں جدت لانے اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کےلئے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے حکومت اگر اپنے اہداف میں زرعی ترقی کو بھی شامل کرلے تو آئندہ چند سالوں میں نہ صرف پاکستان کو زرعی شعبے میں خود کفیل کیا جاسکتا ہے بلکہ اجناس اور زرعی مصنوعات برآمد کرکے اربوں ڈالر بھی کمائے جاسکتے ہیں – پاکستان 22 کروڑ آبادی کے ساتھ دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے جبکہ ہر سال ایک محتاط اندازے کے مطابق آبادی میں چالیس سے پچاس لاکھ کا اضافہ ہورہا ہے – اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2050 تک ہماری آبادی چالیس کروڑ کے قریب پہنچ جائے گی اب اتنی بڑی آبادی کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے اور اس آبادی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کےلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے-ہمارا جی ڈی پی یا ترقی کی رفتار بعض ترقی پذیر ممالک سے کم ہے تاہم مثبت بات یہ ہے کہ ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ان نوجوانوں کو مناسب تربیت دے کر معیشت کو ترقی دی جاسکتی ہے-پاکستان کی نوجوان آبادی نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے تجارتی شراکت داروں کے لیے بے پناہ ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ہر سال، پاکستان کو بیرونِ ملک مقیم پاکستانی محنت کشوں اور مزدوروں سے ترسیلاتِ زر کی شکل میں اربوں ڈالر حکومتِ پاکستان کی طرف سے معمولی خدمات کے عوض ملتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان جارحانہ موقف اپنائے اور اس نوجوان افرادی قوت کو بروئے کار لائے۔ آج کے نوجوان پاکستان کےلئے عالمی تجارت کے دروازے کھولنے اور اسے عالمی معاشی قوت بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں-ملک کا جغرافیائی محلِ وقوع اس کی حقیقی صلاحیتوں سے فوائد حاصل نہیں کر پایا۔ چین کے ساتھ اشتراکِ عمل کی بدولت بہت سے فوائد حاصل کیے گئے ہیں جن میں مزید اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا مشرق وسطی اور وسطی ایشیا کے ساتھ رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مغربی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان نے ایران کے ساتھ تجارتی روابط نہیں بڑھائے، لیکن اب وقت ہے کہ مہنگے سمندری راستوں سے خریداری کی بجائے زمینی سرحد کے ذریعے ایران سے سستا ایندھن حاصل کیا جائے۔ بلا شبہ اس وقت مختلف قسم کے بحرانوں نے پاکستان کو گھیر رکھا ہے مگر ارادے پختہ ہوں تو کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا جس کا حل نہ نکل سکے۔