وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والی لوڈ شیڈنگ کو کم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کو انجام تک پہنچانے کا کہا ہے۔انہوں نے بجلی کمپنیوں سے کہا کہ لوڈ مینجمنٹ کی حالت بہتری کی جائے، اوور بلنگ نہ ہو۔وزیر اعظم نے یہ ہدایات جاری کر کے لوڈ شیڈنگ اور مہنگی بجلی کے ستائے عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ان کی یہ ہمدردانہ ہدایت اپنی جگہ لیکن جب تک طاقتور ، با اثر اور بڑے بجلی چوروں کے لئے حکومت نرم گوشہ رکھے گی ،اصلاح کی امید نہیں کی جا سکتی۔پاکستان نے قرضوں سے لدی اصلا حات کیلئے بجلی چوری کےخلاف کریک ڈاون کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔عالمی اداروں کا دباو نہ ہو تو شاید یہ نمائشی قسم کے اقدامات بھی دکھائی نہ دیں۔بجلی کی چوری دنیا کی ابھرتی ہوئی منڈیوں تک پھیلی ہوئی ہے لیکن پاکستان ایشیا میں بجلی چوری والے بدترین ممالک میں شامل ہے۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کے مطابق، ملک میں تقسیم ہونے والی تمام بجلی کا تقریبا 17%ضائع یا چوری ہو جاتا ہے،کچھ علاقوں میں یہ شرح 37.5%تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کی چوری ، یا بے ایمانی سے نجات کے لئے بجلی کی غیر مجاز تقسیم یا سپلائی پر سزا دی جائے جو قانون کے مطابق دو سال تک ہو سکتی ہے یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے جو ڈھائی لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے۔بجلی چور کو دونوں سزائیں ایک ساتھ بھی دی جا سکتی ہیں۔پاکستان میں بجلی کی چوری ایک وسیع مسئلہ ہے جس نے ملک کو برسوں سے مشکلات سے دوچارکر رکھا ہے۔ وطن عزیز میں بجلی چوری مختلف طریقوں سے ہوتی ہے، بشمول غیر قانونی کنکشن، میٹرسے چھیڑ چھاڑ اور بلوں کی عدم ادائیگی عام طریقے ہیں۔ پاکستان میں بجلی چوری کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے جس سے سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔اس سے نہ صرف توانائی فراہم کرنےوالوں کی مالیاتی حالت پر دباو پڑتا ہے بلکہ یہ بجلی کی بڑے پیمانے پر بندش کا باعث بنتا ہے، جس سے شہریوں کا معیار زندگی گرتا ہے اور صنعتی و اقتصادی ترقی میں رکاوٹ آتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے چوری کو پکڑنے کیلئے کیے گئے زیادہ تر اقدامات نے کچھ بہتری دکھائی ہے۔بجلی ہی نہیں پاکستان میں گیس کی چوری بھی ایک بڑی تشویشناک بات ہے۔ غیر قانونی کنکشن اور گیس میٹر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ قدرتی گیس چوری کرنے کیلئے استعمال کیے جانے والے عام طریقے ہیں۔ یہ غیر قانونی سرگرمی گیس کی تقسیم کار کمپنیوں کے لیے ایک اہم چیلنج ہے، جس کے نتیجے میں محصولات میں نقصان اور حفاظتی اقدامات خطرات کا شکار ہیں۔ غیر مجاز ذرائع سے گیس کی منتقلی بھی سپلائی کی قلت کا باعث بنتی ہے جس سے گھریلو اور صنعتی صارفین دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ توانائی کے شعبے میں کثیر الجہتی خرابیوں کو دور کرنے کے کام میں متعدد سرکاری ادارے شامل ہیں،صنعتی و سرمایہ کاری اہمیت کے حامل منصوبوں میں بجلی و گیس کی چوری روکنے کا کام اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل کو سونپا جا سکتا ہے، جو کہ سرمایہ کاروں کو سہولت فراہم کرنے کیلئے”سنگل ونڈو“کے طور پر کام کرنے کی سہولت ہے۔ اس کی صدارت وزیر اعظم کرتے ہیں وفاقی وزرا ، صوبائی سربراہان اور فوج کے سربراہ سمیت اراکین شامل ہوتے ہیں۔ حکومت نے تمام اسٹیک ہولڈرز کی نمائندگی کے ساتھ ایک کوآپریٹو اور تعاون پر مبنی حکومت کے نقطہ نظر کے ذریعے طویل کاروباری عمل کو مختصر کرنے کیلئے SIFC قائم کیا۔اس کا مقصد ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے دفاعی پیداوار، زراعت، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور توانائی کے اہم شعبوں میں پاکستان کی ناقابل استعمال صلاحیت سے فائدہ اٹھانا ہے۔یہ صلاحیت اسی وقت کام آ سکے گی جب توانائی کے شعبے میں شفافیت بحال کی جا سکے۔ سرمایہ کاری کی پیشکشوں اور عوام کے ایک بڑے حصے کی جانب سے مہنگی ہونے کے باوجود بجلی و گیس کے بل باقاعدگی سے جمع کرائے جاتے ہیں ۔ پھر بھی ملک میں بجلی کی چوری کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ شہریوں کی اکثریت جنریٹروں کی متحمل نہیں ہے۔ لوڈ شیڈنگ کا مقصد بجلی کی محدود پیداوار اور ترسیل کا انتظام کرنا ہے جس سے بہت سے لوگوں کو خاص طور پر کم آمدنی والے علاقوں میں رہنے والوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ کورونا کی آمد اور اس کی وجہ سے نقل و حرکت کی انتہائی پابندی کے باعث بہت سے لوگوں کے پاس ٹھنڈے ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایئر کنڈیشنڈ شاپنگ سینٹرز اور مالز میں جانے کا موقع نہیں تھا۔پھر بھی بہت سے علاقوں کو ایک ہی دن میں 17 گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا۔سکول، کالج اور چھوٹے کاروبار سبھی منتخب افراد اور کمیونٹیز کے ذریعہ بجلی کی چوری کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ نسبتا زیادہ آمدنی والے گھرانے کم آمدنی والے علاقوں کے مقابلے میں کم لوڈ شیڈنگ کا شکار ہوتے ہیں،اس سے پہلے سے وسیع ہوتی ہوئی طبقاتی تقسیم میں اضافہ ہورہا ہے۔بجلی کی چوری کو کم کرنے کیلئے، یوٹیلٹی کمپنیوں نے بجلی چوری کی اطلاع دینے کیلئے کئی چینلز قائم کیے ہیں۔ بدقسمتی سے حکومت ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاور کمپنیوں میں بد اعتمادی پائی جاتی ہے۔ 2018 میں کراچی میں ہونے والے انٹرنیشنل گروتھ سینٹر کے ایک سروے میں بتایا گیا تھا کہ جن لوگوں کو زیادہ لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا ان میں ووٹنگ کی شرح باقی علاقوں سے کم تھی۔وزیر اعظم بجلی سستی کر کے اور قانون کا تمام طبقات پر بلا امتیاز نفاذ کر کے بجلی چوری سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔