Site icon Daily Pakistan

وزیراعظم کادل افروز خطاب

idaria

موجودہ حکمرانوں کو حکومت میں آنے سے قبل اس بات کا علم تھا کہ و ہ ایک بھاری ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے جارہے ہیں جس میں ان کی پوری سیاست داو¿ پر لگ سکتی ہے کیونکہ اقتصادی طور پر ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا ، نصف صدی پرانے دوست اس نازک مرحلے پر تقریباً منہ موڑ چکے تھے اور اشاروں ،کنایوں میں مزید ساتھ دینے سے انکار کا عندیہ بھی دے چکے تھے ، چیلنج یہ تھا کہ ایک طرف بائیس کروڑ عوام غربت ، بے روزگاری اور بھوک کا شکار تھے تو دوسری جانب اپنے سے کئے گنا بڑا ملک پاکستان کو کھا جانے کیلئے پر تول رہا تھا ، ملک کے اندر دہشتگردی کا عفریت دن بدن پھیل رہا تھا ، ان حالات میں ملکی کشتی ایک ایسے بھنور میں پھنس چکی تھی جس سے نکلنا جان جوکھوں کاکام تھا اور حال یہی تھا کہ سابقہ حکومت کو گھر بھیج کر نئی حکومت کو کام کرنے کا موقع دیاجائے ،چنانچہ اس عالم میں مختلف سیاسی جماعتوں کو اکھٹا کرکے پی ڈی ایم جیسے اتحاد کی داغ بیل ڈالی گئی اور ایک روشن مستقبل کیلئے متحد ہوکر جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ، تاریخ کے صفحات گواہ ہے کہ پی ڈی ایم کے اندر موجود بعض جماعتوں کا خیال تھا کہ ملک کو اسی حالت میں چلنے دیا جائے تاکہ آئندہ انتخابات میں سابق حکمران جماعت کو منہ کی کھانا پڑی مگر ایسے عالم میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ سیاسی جماعتیں آتی جاتی رہتی ہیںلیکن ایسے عالم میں ملک کو تنہا چھوڑنا ملک دشمنی کے مترادف ہوگا چنانچہ حکومت کیخلاف عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا گیا ، اگر صاف لکھا جائے تو مسلم لیگ ن کی حکومت کیلئے یہ ایک سیاسی خودکشی کے عمل کے مترادف کام تھا مگر پی ڈی ایم اور دیگر جماعتوں نے یہ کڑا گھونٹ بھر لیا ، ملک کو معاشی گرداب سے نکالنے کیلئے نئے ٹیکسز لگانے پڑ ے ، قومی خزانہ اور زرمبادلہ کے ذخائر پورا کرنے کیلئے دوست ممالک سے امدادیں مانگی گئیں جس کے نتیجے میں ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑاجبکہ بجلی اور دیگر اشیائے صرف پر لگنے والے نئے ٹیکسوں نے غریب عوام کی رہی سہی کسر بھی نکال دی ، اسی حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کو بچانے کیلئے بڑی قیمت ادا کی، قدم نہیں ڈگمگائے، ملک دیوالیہ ہوتا تو قیامت تک میرے ماتھے پر کالا دھبہ، قبر پر کتبہ لگ جاتا۔ 15، 16 ماہ کے قلیل عرصے میں ہمیں تاریخ کے مشکل ترین چیلنجز ملے، اس کو کہتے ہیں سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے، 11 اپریل 2022 کو جب میں نے اقتدار سنبھالا تو مجھے احساس تھا کہ حالات بہت مشکل ہیں لیکن اس کا اندازہ نہں تھا کہ حالات حد درجہ تباہ کن ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جب اقتدار سنبھالا تو تاریخ کا بدترین سیلاب آیا جس کی بحالی کےلئے ہم نے 100ارب روپے خرچ کیے لیکن سیلاب زدگان کا حق ہم آج بھی ادا نہ کر سکے، اس کی وجہ وسائل کی شدید قلت ہے۔میں نے اپنے سیاسی کیریئر میں ایسے چیلنجز کا سامنا نہیں کیا، اتحادیوں سمیت خود میرے قائد نواز شریف عوام پر مہنگائی کے بوجھ کی وجہ سے پریشان تھے اور مجھ سے سوال کرتے تھے کہ کیا بنے گا؟میرا جواب یہی ہوتا تھا اور یہی رہے گا کہ نیازی حکومت نے اپنی سیاست کو چمکانے کےلئے ریاست کو قربان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ ہماری مخلوط حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہم سیاست کو قربان کردیں گے مگر ریاست کو بچا لیں گے۔ یہی وہ فیصلہ تھا جس کی خاطر ہم ڈٹ گئے ورنہ اگر ملک قربان ہوجاتا تو کہاں کی سیاست اور کہاں کی وزارت عظمیٰ، ہم نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے لیکن ہمارے قدم نہیں ڈگمگائے۔ امید ہے کہ رواں برس کپاس کی ریکارڈ فصل پیدا ہونے والی ہے، ہمیں گندم اور کپاس منگوانے کے لیے جو اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑتے تھے اس میں بہت کمی آجائے گی۔ ہمیں آئی ایم ایف سے معاہدے کرنے کےلئے دن رات پاپڑ بیلنے پڑے، 9 مئی کا سانحہ ہوا، چیئرمین پی ٹی آئی کی انتشار پسندی نے ملک میں سرمایہ کاری اور انتشار پسندی کو جامد کردیا تھا، ہمارے مالی وسائل محدود ہو چکے تھے لیکن اللہ کے فضل سے ہم ڈیفالٹ سے بچ گئے۔ آج پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے، 75 برس میں ہم سے فاش غلطی ہوئی کہ ہم نے پن بجلی کے منصوبوں پر توجہ نہیں دی، تیل، بجلی اور گیس کے منصوبوں پر ارب کھرب لگ گئے، اس کا آدھا سرمایہ بھی داسو اور دیامر بھاشا ڈیم پر لگاتے تو آج پاکستان کی معاشی صورتحال یہ نہ ہوتی اور ہمیں کشکول کی ضرورت نہ پڑتی۔ قبل ازیںزیراعظم محمد شہباز شریف نے ڈیرہ اسماعیل خان میں 8 ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح و سنگ بنیاد رکھا۔ نیز وزیراعظم کی زیرصدارت انٹرنیشنل پارٹنرز سپورٹ گروپ کا تیسرا اجلاس ہوا، پارٹنر سپورٹ گروپ کی تشکیل پاکستان میں 2022 کے تاریخی سیلاب کے تناظر میں کی گئی، اجلاس کو 9 جنوری کو جنیوا میں منعقد ہونے والی ریزیلئنٹ پاکستان کانفرنس کے تناظر میں سیلاب متاثرہ علاقوں کی بحالی و تعمیر نو پر پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔اس موقع پروزیر اعظم کاکہناتھا کہ خود انحصاری کی پالیسی کو اپنا کر معیشت کی بحالی کےلئے ٹھوس اصلاحات لانا ہوں گے، وقت آگیا ہے کہ ہم آئندہ بیرونی قرضوں کے عمل کو ترک کر دیں۔پاکستان کو گزشتہ سال موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، سیلاب کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ سیلاب متاثرین تباہ حال گھروں میں واپس نہیں جا سکے، محدود وسائل کے پیش نظر پاکستان کے لیے عالمی امداد کے بغیر سیلاب متاثرین کی بحالی ممکن نہ تھی، عالمی برادری کی جانب سے جنیوا کانفرنس کا انعقاد خوش آئند تھا۔ ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول بنانا ہو گا، ہمیں قرضوں کی نہیں منافع بخش سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، پاکستان زراعت کے حوالے سے بے پناہ وسائل کا حامل ملک ہے۔ آئندہ منتخب حکومت کو معیشت کی بحالی کے لیے فوری طور پر ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے۔اب جبکہ موجودہ حکومت کے پاس محض گنتی کے دن رہ گئے ہیں اور وہ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے کیلئے تنہا چھوڑ کر رخصت ہونے والی ہے ، اس کے مستقبل پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے ، عوام جب سابقہ حکومت کے دور میں ہونے والی مہنگائی اور ٹیکسز کی شرح کے درمیان موازنہ کرتے ہیں تو سابقہ حکومت انہیں فرشتہ نظر آتی ہیں ، قوم کا مستقبل کیا ہوگا یہ تو اللہ کی ذات ہی بہتر جانتی ہے مگر عوام کیسے اپنا مسیحا تسلیم کرے اس کا فیصلہ چند ماہ بعد ہوجائےگا۔
کے پی کے میں مسجد کے اندر دہشتگردی کی کارروائی
دہشتگردوں نے مذہبی مقدس مقامات کو بھی نہیں چھوڑا اور انہیں بھی اپنا نشانہ بنالیا ہے ، گزشتہ روز ضلع خیبر کے علاقے جمرود کی مسجد میں خودکش دھماکے میں پولیس افسر شہید ہوگیا۔ترجمان خیبر پولیس کے مطابق علی مسجد میں دھماکہ ہوا۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور ریسکیو ٹیمیں جائے وقوعہ پہنچیں۔دھماکے میں ایک پولیس افسر ایڈیشنل ایس ایچ او عدنان آفریدی شدید زخمی ہوئے انہیں اسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاسکے۔آئی جی خیبرپختونخوا نے بتایا کہ مشکوک شخص نے خالی مسجد میں گھسنے کی کوشش کی، ایڈیشنل ایس ایچ او کے روکنے پر اس نے اپنے آپ کو اڑایا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم ملکر اس دہشتگردی کا مقابلہ کرے۔
پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی پر امریکا کا اظہار تشویش
پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کی مذمت کی باز گشت اب امریکی ایوانوں سے بھی اٹھنا شروع ہوگئی ہے اور بیانات کی حدتک اس کی مذمت بھی کیا جارہی تاہم اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان دہشتگردوں کے سرپرستوں کو عالمی مجر م قرار دے کر طاقتور ممالک پاکستان کی حمایت شروع کریں امریکا کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سے ٹیلی فون پر بات چیت کی، انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام دہشت گردی سے شدید متاثر ہوئے ہیں، انسداد دہشت گردی کےلئے پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔ پاکستان کے ساتھ تعمیری، جمہوری شراکت داری کے خواہاں ہیں۔ پاکستانی معیشت کی بحالی، افغانستان اور علاقائی خدشات سمیت مشترکہ تحفظات پر بھی بات ہوئی۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا تکنیکی، ترقیاتی اقدامات، تجارتی اور سرمایہ کاری تعلقات کے ذریعے پاکستان کے ساتھ رابطے جاری رکھے گا۔

Exit mobile version