پاکستان دنیا کا خوبصورت ترین اور قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے لیکن عصر حاضرمیںایٹمی طاقت کے باوجود معاشی لحاظ سے کمزور ہوچکا ہے۔آئی ایم ایف اور دیگر اداروں اور ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے ایٹم بم بنایا تو پاکستان کےلئے بھی ایٹم بم بناناضروری ہوگیا تھاکیونکہ ماضی میںپڑوسی ملک کے ساتھ متعدد بار جھڑپیں اور جنگیں ہوچکی تھیں۔ ایٹم بم بنانے کےلئے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم،افواج پاکستان اور دیگر سائنسدانوں اور افراد کا اہم رول رہاجو قابل تعریف اور قابل تحسین ہے۔سابق وزیراعظم نواز شریف جھنوں نے بہت زیادہ پریشر کے باوجود ایٹمی دھماکے کیے ،ان کے کردار کو فراموش نہیں کرسکتے اور ان کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔پاکستان کا ایٹمی طاقت بننے پرسب فخر کرتے ہیں جس کےلئے سب نے لازوال قربانیاں دیں۔ ایٹمی طاقت کے حصول کے ساتھ معیشت پرتوجہ ضروری تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔اس کی متعدد اسباب ہیں، (الف)انا، (ب) کرپشن ، (ج)انصاف کا فقدان، (د)نظم وضبط۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان اتحاد، ایمان اور نظم وضبط کے مطابق چلنا چاہیے تھا لیکن حقیقتاً اس کے برعکس چلے۔اتحاد کی بجائے بنگالیوں کے ساتھ مسائل پیدا کئے حالانکہ ان کا پاکستان بنانے میں نمایاں کردار تھا،وہ مخلص اور محنتی لوگ تھے۔محض چند افراد کی انا کے باعث مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میںفاصلے بڑھ گئے۔پاکستان چند افراد کی ضد اور انا کے بھینٹ چڑھ گیا اورمشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا ۔اسی انا کے باعث پاکستان میں متعددبار حکومتیں ختم ہوئیںحالانکہ اس میں ملک یا اداروں کا کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا لیکن ان کے باعث ملک اور اداروں کا نقصان ہوا ۔انا کے بعد وطن عزیز پاکستان میں دھیرے دھیرے کرپشن میں اضافہ ہوگیا ۔ کرپشن کو ختم کرنے کےلئے اینٹی کرپشن کا ادارہ قائم کیا لیکن کرپشن میںکمی نہ ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوگیا۔ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا لیکن اس کے باوجود اس ریاست میں کرپشن ، رشوت، ملاوٹ، جھوٹ، کام چوری بہت زیادہ ہے۔بٹوارے کے بعد کروڑوں انسانوں نے آبائی گھروں کو چھوڑکر ہجرت کی۔اس دوران لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے، لاکھوں مضروب ہوئے ، لاتعداد بیمار ہوگئے ، لاکھوں بے روزگارہوگئے اور لوگوں کو ڈھیروںمسائل کا سامنا کرنا پڑا۔لوگوں نے غم و الم اس لئے برداشت کیا تھا کہ ان کی زیست اسلام کے مطابق بسر ہوگی اور ان کے حالات بدل جائیں گے لیکن بعض عناصر نے حالات ایسے پیدا کئے کہ لوگ کسی اور راستے پر چل پڑے۔ اسلام میں کرپشن ، رشوت، ملاوٹ، جھوٹ، کام چوری وغیرہ چیزوں کی قطعی کوئی اجازت نہیں ہے۔اسلام فطری اور پریکٹیکل مذہب ہے۔پیغمبر اسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کچھ عملی طور پر کر کے دکھایا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف مسلمانوں کےلئے نہیں بلکہ اقلیتوں کے ساتھ بہترین رویہ رکھا ، ان کا خیال رکھا ، ان کی حفاظت کی اور ان کے حقوق متعین کیے ۔درختوں ،پودوں ، فصلوں اور جانوروں کے بارے میں ہدایات دیں۔اسلام نے انصاف پرسب سے زیادہ زور دیا لیکن وطن عزیزمیں شہریوں کو انصاف کتنا ملتاہے؟آپ سب بہتر جانتے ہیں ۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے لیکن ظلم و ناانصافی کی حکومت نہیں ۔ لہٰذا یہ ایک ازلی حقیقت ہے کہ کسی بھی ریاست میںخوشحالی اور استحکام کا سبب قانون پر من وعن عمل در آمد اور بلاتفریق عدل و انصاف کی فراہمی ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے نظم وضبط پر زور دیا تھا۔قر آن مجید میں ارشاد ہے کہ” تمام نظام فلکی اپنے اپنے مدار میں گردش کررہے ہیں۔” فطرت میں نظم وضبط پایا جاتا ہے ۔ پرندوں، مچھلیوں ، جنگلی جانوروں ، چوپائیوں کو دیکھیں ،وہ قطاروں ، ریوڑوں اور غولوں کی صورت میں رہتے ہیں اور ان میں نظم وضبط پایا جاتا ہے ۔ تربیت یافتہ قومیں ہنگامی حالات میں بھی نظم وضبط کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ غیر تربیت یافتہ قومیں ایک ہجوم کی طرح ہوتی ہیں،ان کا معاشرتی ارتقا ءرک جاتا ہے اور وہ زوال کی جانب گامزن ہوتی ہیں اور ایک دن فنا ہوجاتی ہیں ۔اب آپ خود فیصلہ کریں کہ جن میں انا ہو ، کرپشن کرے، انصاف کےلئے لوگ دھکے کھاتے پھیریں اور نظم وضبط نہ ہو تو ان کا حال اور مستقبل کیسے بہتر ہوسکتا ہے؟دنیا بھر کے ممالک سے قرض مانگتے پھیررہے ہیں لیکن اپنے پرائے قرض دینے کےلئے آمادہ نہیں ہیں۔عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)سے سخت ترین شرائط پر صرف چند ارب ڈالرقرض کےلئے سب کچھ پہلے عمران خان حکومت اور اب پی ڈی ایم کی حکومت کرنے کےلئے تیار ہے ۔ ملک میں پہلے ہی بدترین مہنگائی اور غربت ہے۔بجلی، گیس اورپٹرولیم مصنوعات کے باعث ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس لیا جاتا ہے لیکن ٹیکس دینے والے کے کھاتے میں ٹیکس درج بھی نہیں ہوتا ہے۔ جی ایس ٹی ہر شہری بچے سے بزرگ تک ادا کرتا ہے۔بڑے سٹور میں ایک چیز پر ڈبل جی ایس ٹی لیا جاتا ہے، ایک مرتبہ فیکٹری والے چیز پر جی ایس ٹی لگاتے ہیں اور خریدتے وقت سٹور والے اسی چیز پرعلیحدہ سے دوبارہ جی ایس ٹی لگالیتے ہیں یعنی صارف کو ایک چیز پر ڈبل جی ایس ٹی دیناپڑتا ہے ۔جس ملک میں بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات بہت زیادہ مہنگی ہوں اورٹیکس بہت زیادہ ہو ،وہاں لوگوں کی قوت خریدکمزور ہوجاتی ہے، وہ ملک کیسے ترقی کرے گا ؟آئی ایم ایف نے دیگر سخت ترین شرائط کے ساتھ ساتھ دو پاور پلانٹس اور سیٹل مل کی نجکاری کابھی کہہ دیا ہے اور جی ایس ٹی کوسترہ فی صد سے اٹھارہ فیس کرنے کا بھی کہا ہے۔جون تک حویلی بہادر شاہ اور بلوکی پاور پلانٹس کی نجکاری کی جائے گی۔نجکاری ایسی پالیسی پر جاتی ہے کہ جس سے غریب لوگوں کا ہمیشہ نقصان ہوتا رہتا ہے۔ خاکسار نجکاری کے بہت خلاف تھا لیکن جب سرکاری افسران اور ملازمین کی کارکردگی اور کام کو دیکھتے ہیں تو پھر نجکاری کو ضروری سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ "آئی ایم ایف ہر ایک ادارے اور شعبے کی کتاب کا جائزہ اور ایک ایک دھلے کی سبسڈی کا جائزہ لے رہا ہے۔”آئی ایم ایف کو موقع مل چکا ہے، اب وہ آگے پیچھے سب حساب برابر کریں گے۔آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور معاشی حالات مزید خراب ہونے سے لوگوں کو یقینا مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اس کا ردعمل بھی ہوگا۔ لوگ عیاشیاں ترک کردیں گے، کفایت شعاری اپنالیں گے، لوگ سخت جان ہوجائیں گے، لوگوں میں مشکلات کو سہنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا ، لوگوں کا مذہب کی جانب رججان بڑھ جائے گا ، لوگ اللہ رب العزت کے قریب ہوجائیں گے ،جو اللہ رب العزت کے قریب ہوجائے، وہ معزز اور مقرب ہوجاتے ہیں۔دنیا کی تمام طاقتیں اکھٹی ہوجائیں لیکن جس کے پاس اللہ رب العزت کی مدد ہو ،اسی کو کامیابی وکامرانی ملتی ہے۔اسلام کے ابتدائی دور میںبڑی بڑی طاقتیں تھیں ،وہ سب ختم ہوگئیں ۔ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں،اب وقت کا تقاضا ہے کہ اپنی سوچ بدلنی چاہیے،قرآن وحدیث سے رہنمائی لینی چاہیے، اسی میں کامیابی ہوگی ۔ قارئین کرام ! آئی ایم ایف کی سخت شرائط ہی لوگوں کےلئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگا، لوگوں کی سوچ بدل جائے گی ، جب سوچ بدل جائےگی تو پھر حالات ہی بدل جائینگے۔