پارلیمانی نظام حکومت مکمل طورپر ناکام ہے جبکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں پارلیمانی جمہوری نظام کامیابی سے رائج ہے ۔ پاکستان میں اس نظام کو چلانے والے نا اہل اور نالائق ہیں۔ ناتجربہ کار اور نالائق رہنما، سیاستدان اور قیادت اپنی ناکامیوں کا ملبہ بہترین پارلیمانی جمہوری نظام پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔بلدیاتی نظام سیاسی قیادت کی نرسری کا درجہ رکھتے ہیں جنہیں اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی نظام ناکام ہوچکا ہے۔اس نظام نے ہمیں سیاسی عدم استحکام، بے انتہا کرپشن، عوامی استحصال ، قانون کی غیر حکمرانی اور جہالت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ حکمران کرپشن میں ملوث ہیں۔حکومت اور اپوزیشن صرف اپنے مفادات کےلئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ اپنے کاروبار اور مفادات کےلئے قوم کو مہنگائی کی دلدل میں دھنسا دیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کئی مرتبہ یہ اشارہ کر چکے ہیں کہ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن موجودہ نظام کی وجہ سے وہ کر نہیں پاتے۔ آخر کیا مشکلات ہیں اور کیوں پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کرنے کے متعلق ایک مرتبہ پھر سے بحث میں تیزی آ گئی ہے؟ صدارتی نظام لانے کی بحث بہت پرانی ہے اور پاکستان بننے کے کچھ ہی سال بعد شروع ہو گئی تھی۔ یہاںایک باز گشت یہ بھی ہے کہ صدارتی نظام کی طرف جانے کی سوچ اچانک نہیں پیدا ہوئی بلکہ عمران خان کی حکومت آنے سے پہلے صدارتی نظام حکومت کی سوچ تھی کیونکہ ماضی میں عمران خان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ صدارتی نظام کے حامی ہیں۔ ایوب خان ان کا ہیرو ہے اور وہ ایوب خان کے دور کو سنہری دور قرار دیتے ہیں۔ عمران خا ن جس تبدیلی کا نعرہ لگا کر میدان سیاست میں داخل ہوئے اس تبدیلی سے ان کی مراد نظام حکومت کو تبدیل کرنا ہے اور ان کے نزدیک صدارتی نظام حکومت موجودہ پارلیمانی طرز حکومت سے بہتر ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ صدر بن کر انھیں اتنی طاقت مل جائے گی کہ وہ فرسودہ نظام تبدیل کرنے والی پالیسیوں کو نافذ کر سکیں۔ 1956ءمیں آئین ساز اسمبلی نے پاکستان کا پہلا آئین منظور کیا تھا جس نے پارلیمانی طرز حکومت کی راہ ہموار کی۔ اس سے پہلے برطانوی پارلیمانی طرز حکومت پاکستان میں رائج تھی جو 11 برس تک 1958ءمیں فوجی بغاوت کے ذریعے سر فیروز خان نون کی حکومت ختم کیے جانے تک رائج رہی۔ فوجی رہنما جنرل ایوب خان نے ایک انوکھے صدارتی نظام کا تجربہ کیا جسے شدید عوامی رد عمل کے باعث ترک کرنا پڑا اور یوں دوسرے مارشل لا کی راہ ہموار ہوئی۔ خانہ جنگی اور ملک کے دو لخت ہونے کے صدمات سے بھرپور مارشل لا میں بیتے وقت کے بعد جب ملک دوبارہ جمہوریت کی طرف لوٹا تو 1973ءمیں ایک نیا آئین متفقہ طور پر منظور کیا گیا جس میں ایک بار پھر پارلیمانی نظام حکومت اپنایا گیا۔محترم گیلانی صاحب کا کہنا ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ موجودہ مغربی سیاسی و معاشی نظام کی وجہ سے پاکستان مقروض، جاہل، غریب اور پسماندہ ہے۔ لیکن اگر قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے تصورات کے مطابق ریاستی نظام بنایا جاتا تو پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوچکا ہوتا۔قائداعظمؒ سرمایہ داری اور جاگیرداری کے سخت خلاف تھے۔ انہوں نے ایک خطبے میں جاگیرداروں کو بدفطرت، مفاد پرست اور ناقابل اصلاح قراردیا اور دوٹوک الفاظ میں کہا کہ انہوں نے پاکستان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کیلئے نہیں بلکہ غریب عوام کیلئے حاصل کیا۔ وہ پاکستان میں ایسا نظام نافذ کریں گے جسکے نتیجے میں عام آدمی کے معیار زندگی میں اضافہ ہو۔”پاکستان کی قطعی اساس معاشرتی انصاف اور اسلامی سوشلزم پر ہونی چاہیئے جو مساوات اور انسانی اخوت پر زور دیتا ہے“۔بہترین نظام حکمرانی میں ضروری ہے کہ ٹیکنیکل افراد اسمبلیوں میں بھیجے جائیں۔ ڈاکٹرز، معیشت دان، مذہبی سکالرز، قانون دان ،زرعی ماہرین جیسے لوگ اگر اسمبلیوں میں ہوں گے تو بہتر انداز سے قانون سازی کر سکیں گے۔ اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر افراد اپنی وزارتوں میں بہترین کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ عوامی فلاح و بہبود کے قوانین اور پالیسیاں بنا سکتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ایسے افراد کو اسمبلی میں نمائندگی دینی چاہیے جو کسی نہ کسی فیلڈمیں ماہر ہوں اور کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہوں۔