Site icon Daily Pakistan

پاکستان کا سیاسی نقشہ اور بھارتی عزائم

یہ امر قابل ذکر ہے کہ نقشے انسانی زندگی میں ایک خاص اہمیت کے حامل ہو تے ہےں کیوں کہ نقشے ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم زمین پر کہاں رہتے ہیں یہ ہمیں دُنیا سے مکمل آگاہ کرتے ہیںاور ہمیں دنیا کے مختلف حصوں سے رابطے میں رکھتے ہیں،اس کی مدد سے ہمیں زمینی فاصلوں کا اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔ یاد رہے کہ زمین یا زمین کے کسی حصے کو جب پیمانے کے مطابق ہموار سطح پر دکھایا جاتا ہے تو اسے نقشہ کہتے ہیں۔مبصرین کے مطابق کسی علاقے کی سیاحت کے لئے ہمیں نقشے کی مدد درکارہوتی ہے اسی طرح جنگ کی منصوبہ بندی کا دارو مدار بھی نقشوں پر ہوتا ہے، نقشے ہمیں دنیا میں پائے جانے والے مختلف قسم کے ماحول سے روشناس کراتے ہیں۔ایسے میں بلا جھجک یہ کہا جا سکتا ہے کہ نقشہ نویسی ایک ایسا فن ہے جو انسانی زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہوتا ہے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے ہمیں سبھی پہلوﺅں سے مکمل طور پر آگاہی ہو۔و¿اسی پس منظر میں پاکستان نے بین الاقوامی تناظرمیں 2020میں ملک کا جو نیا نقشہ جاری کیا تھا اسے مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست 2019 کو کیے گئے اقدامات اور جونا گڑھ اور سر کریک سمیت دیگر متنازع علاقوں کے بارے میں بھارت کے برسوں سے جاری عیارانہ حربوں کے تناظر میں عالمی برادری کو حقائق اور پاکستانی نقطہ نظر سے آگاہ کرنے کی ایک ضرورت کے طور پر دیکھا گیا‘ مگر کئی دیگر حوالوں سے بھی اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔یہ سیاسی نقشہ اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا او ر یوں اسے پاکستان کے سرکاری نقشے کی حیثیت حاصل ہے۔ بلاشبہ یہ نقشہ قومی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت نے 5 اگست 2019 ءکو جو قدم اٹھایا تھا یہ نقشہ اس کی نفی ہے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام رائے شماری کا حق حاصل ہونے کے بعد ہی مقبوضہ کشمیر کے بارے میں حتمی فیصلہ کریں گے اور یقین ہے کہ وہ اپنی منزل حاصل کر لیں گے۔ عالمی قوانین کے ماہرین کے مطابق بھارت نے اقوام متحدہ کی طرف سے متنازعہ اور خود اپنے آئین میں خصوصی حیثیت کے حامل قرار دیے گئے علاقے مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے میں ایسی ترامیم کیں جو قانوناً کی ہی نہیں جا سکتیں۔ِ یاد رہے کہ پاکستان کے جاری کردہ نئے سیاسی نقشے میں سری نگر سمیت مقبوضہ کشمیر کے دیگر علاقوں کی سبز رنگ کے ذریعے نشاندہی کی گئی ہے۔ان کے بارے میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ یہ علاقہ متنازعہ ہے‘ جس کی حیثیت کا تعین اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا باقی ہے؛ چنانچہ غیر طے شدہ سرحد کی وضاحت کے ساتھ مشرقی سمت کی بین الاقوامی سرحد ہماچل پردیش سے ملتی دکھائی گئی ہے‘ جبکہ سرکریک جو 1914ءکے حکومتِ سندھ اور ریاست کَچھ کے معاہدے کے تحت پاکستان کا حصہ ہے‘ اس کے مشرقی کنارے تک سرحد دکھائی گئی ہے۔رن آف کچھ کی جنگ 1965 ءکے بعد عالمی عدالت میں ثالثی کے ذریعے جو فیصلے کیے گئے تھے‘ ان میں سر کریک پر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا تھا مگر یہ 1971ءکی جنگ کے شعلوں میں نظرانداز ہو گیا‘ حالانکہ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں سرکریک کا مقدمہ بھی لڑا تھا۔ اس موقع پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستانیوں کے دل اپنے کشمیری بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے غیر قانونی اقدامات سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی متزلزل نہیں بلکہ اور مضبوط ہو گی ۔اسی ضمن میں انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، جو کچھ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہو رہا ہے پاکستان اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا، بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر پر غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلہ دیا ہے اور ایسے کٹھ پتلی عدالتی فیصلوں سے زمینی حقائق نہیں بدلے جا سکتے، کشمیریوں کو طاقت کے زور پر زیر کرنے کا بھارتی خواب کبھی پورا نہیں ہو گا، دنیا کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے مفاد اور سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس تمام پس منظر کا جائزہ لیتے سنجیدہ حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نے جس موثر اور واضح انداز میں پاکستان کا موقف پیش کیا ہے وہ ہر لحاظ سے قابل ستائش ہے ۔ایسے میں تو قعو¿ کی جانی چاہےے کہ پاکستانی معاشرے کے سبھی طبقات وزیر اعظم کے موقف کو قومی بیانےے کے طور پر لیں گے اور اس ضمن میں اپنا اپنا فریضہ احسن ڈھنگ سے نبھائیں گے۔تاکہ بھارت کے مکروہ عزائم کو ناکام بناتے ہوئے پاکستان کی قومی سلامتی اور معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کرئیں گے۔

Exit mobile version