تمام تر حکومتی دعوﺅں کے باوجود ہوشربا گرانی روز بروز بڑھ رہی ہے ۔روز مرہ استعمال کی اشےاءکی قےمتےں آسمان سے باتےں کر رہی ہےں ۔بازار مےں فروخت ہونے والی چےزوں کے علاوہ بجلی ،گےس کے بلوں کی ادائےگی غرےب عوام کی پہنچ سے دور ہو گئی ہے ۔ پاکستان مےں گرتا ہوا معےار زندگی اور بےروزگاری کے عفرےت کا رقص مجنونانہ دےکھ کر دل کڑھتا ہے ۔بے روزگاری نے ہر گھر مےں پرےشانی ،ذہنی خلفشار اور ماےوسی کے نتےجے مےں خود کشی کی طرف رغبت دلائی ہے ۔گرانی کا عذاب زےادہ تر ان لوگوں پر نازل ہوا جو ماہوار تنخواہ پاتے ہےں ۔ اول تو ان کی تنخواہ نہےں بڑھتی ،بڑھ جائے تو قےمتوں مےں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے ۔تنخواہ بڑھنے کے باوجود تنخواہ دار طبقہ ہاتھ ملتے رہ جاتا ہے ۔ملکی سطح پر بنائے جانے والے تمام قوانےن خواہ ان کا تعلق معےشت سے ہو ،انتظامی امور ےا فراہمی انصاف سے انہےں بنانے والوں کے پےش نظر ملکی حالات و واقعات اور دےگر ضروری امور ہوتے ہےں لےکن ہر قانون اور پالےسی کا مقصد اور محور عوام کو سہولتےں فراہم کرنا ،ان کےلئے اچھا اور سازگار ماحول ،ظلم و انصاف سے پاک اور انصاف پر مبنی معاشرہ کی تشکےل جےسے بنےادی مقاصد کار فرما ہوتے ہےں اور حتمی طور پر ان سب کا مقصد و منشاءعوام کی بھلائی اور فلاح و بہبود پر منتج ہوتا ہے لےکن بد قسمتی سے ہمارے ملک مےں دو طبقے تشکےل پا چکے ہےں جن کی طرز معاشرت اور طرےقہ زندگی جدا جدا ہےں ،جس مےں اےک طبقے کی پورے ملک پر حکمرانی ہے جسے ہم عرف عام مےں مراعات ےافتہ طبقہ کہتے ہےں جسے ہر سطح پر تمام بنےادی سہولتےں اتنی فراوانی کے ساتھ مےسر ہےں کہ ملک مےں بڑھتی ہوئی بے ہنگم اور روز افزوں مہنگائی کا عفرےت بھی انہےں متاثر کرنے مےں ناکام رہتا ہے اور کےوں نہ ہو ؟ چونکہ بجلی ،گےس ،ٹےلی فون ،تعلےم ،علاج معالجے ، رہائش ،ذرائع آمدو رفت بمعہ پورے خاندان کے دےگر سہولتےں سرکاری (قومی خزانے) پر مےسر ہےں لہذا اےسے افراد کو عوام کی تکالےف کا ادراک کےونکر ہو سکتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ ان مظلوم عوام پر مشتمل ہے جسے ان کے شاہانہ اخراجات کا بار اپنے ناتواں کندھے پر اٹھانا پڑتا ہے ۔انہی مےں سے اےک اےسا مظلوم طبقہ ہے جسے سرکاری ملازمےن کہا جاتا ہے ۔تےزی سے مہنگائی بڑھ رہی ہے لےکن ان کی ماہانہ آمدن منجمد ہو چکی ہے جس سے ان کا عرصہ حےات تنگ سے تنگ تر ہوتا جا رہا ہے ۔ےہ طبقہ کسی بھی رےاست کےلئے رےڑھ کی ہڈی کی حےثےت رکھتا ہے ۔ےہ وہ لوگ ہےں جو حکومت کی طرف سے نافذ کردہ تمام براہ راست اور بلواسطہ ٹےکس ادا کرتے ہےں مگر پھر بھی اپنی محنت کے عوض اقتصادی پالےسی سازوں سے ہر سال تنخواہےں بڑھانے کی بھےک مانگنے پر مجبور ہوتے ہےں اور وہ حکومتی نظام کا حصہ ہو کر بھی سرماےہ دارانہ نظام کے مسلط کردہ جبر کا شکار رہتے ہےں ۔اس لئے اس کے سوا اور کےا کہہ سکتے ہےں کہ ’وہ پےڑجن پر پرندوں کے گھر نہےں ہوتے ،بلند جتنے بھی ہوں معتبر نہےں ہوتے ۔تنخواہ دار طبقے کے علاوہ اےک دوسری رگ بھی موجود ہے جو ہاتھ رکھنے سے مزےد دکھنے لگتی ہے ےہ تنخواہ داروں مےں بزرگوں کا وہ طبقہ ہے ،جس نے تمام عمر ملازمت مےں رہ کر حکومت اور عوام کی خدمت کی لےکن زندگی کے آخری حصے مےں پنشن اتنی کم ملی کہ زندگی گزارنا مشکل ہو گےا ۔عمر رسےدہ لوگوں کو اندازہ ہے کہ زندگی کے اس حصے مےں کون سی ذمہ دارےاں دامن گےر ہوتی ہےں اور وہ مرتے دم تک پےچھا نہےں چھوڑتےں ۔موجودہ وفاقی حکومت نے نئے سال کا بجٹ پےش کےا جس مےں گرےڈ 1سے16کے گورنمنٹ ملازمےن کےلئے تنخواہ مےں35فےصدجبکہ گرےڈ 17 سے اوپر کے ملازمےن کی تنخواہ مےں 30فےصد اضافے کی تجوےز دی گئی ۔مہنگائی کے تناسب سے ےہ اضافہ بھی معمولی تھا ۔رےٹائرڈ پنشنروں کے ساتھ ناانصافی کرتے ہوئے ان کی پنشن مےں صرف 17.5فےصد اضافہ دےا گےا لےکن نہ جانے کےوں پنجاب کے بجٹ مےں ملازمےن کی تنخواہوں مےں 35کی بجائے 30فےصد اضافہ منظور کےا گےا جبکہ پنشنرز کو صرف 5فےصد اضافے کا مستحق گردانا گےا ۔اےک ہی ملک کے ملازمےن سرکار اور پنشنرز کے ساتھ ےہ تفاوت کےوں ؟ حالانکہ پنجاب تو اپنے وسائل کے لحاظ سے بھی دوسروں سے بڑا صوبہ ہے اور کہا جا رہا ہے کہ پنجاب کا بجٹ سر پلس ہے ۔شنےد تو ےہی تھی کہ پنجاب کے نگران وزےر اعلیٰ محسن نقوی غرےب عوام کے مسائل کے حوالے سے بہت ہی منطقی اور ہمدردانہ سوچ رکھتے ہےں لےکن پنجاب بجٹ مےں پنشنرز سے روا رکھا گےا سلوک اس حوالے سے حےران کن ہے ۔ےقےناً پنجاب مےں نگران حکومت کی طرف سے پنشن مےں صرف 5فےصد اضافے کے فےصلے کے سےاسی اثرات وفاق مےں مسلم لےگ ن کو برداشت کرنا پڑےں گے ۔اگر کسی کے خےال مےں ےہ بجٹ پنجاب کی نگران حکومت کا ہے تو ےہ اس کا خےال خام ہے کےونکہ محسن نقوی اتحادی حکومت کا ہی منتخب کردہ نگران وزےر اعلیٰ ہے ۔معزز قارئےن اےک طرف بوڑھے پنشنرز کے ساتھ ےہ زےادتی کہ پنجاب مےں ان کو صرف5فےصد اضافے کی زکواة دے کر نوازا جا رہا تھا تو دوسری طرف سےنےٹ مےں چئےرمےن اور ڈپٹی چئےرمےن کی مراعات مےں اضافے کا بل منظور ہو رہا تھا اور ان پر نوازشات کی بارش ہو رہی تھی جو پہلے ہی آسودہ حال ہےں ۔ناظرےن پڑھےں اور سر دھنےں ۔بل کے مطابق چیئرمےن سےنےٹ کے آفس کا الاﺅنس 6ہزار سے بڑھا کر 50ہزار کر دےا گےا ۔گھر کا کراےہ اےک لاکھ تےن ہزار سے بڑھا کر اڑھائی لاکھ روپے ماہانہ اور چیئرمےن سےنےٹ کی سرکاری رہائش گاہ کے فرنےچر کےلئے اےک بار کے اخرجات اےک لاکھ روپے سے بڑھا کر 50لاکھ کر دئےے گئے ۔بےرون ملک سفر پر چیئرمےن کو نائب صدر کا پروٹوکول اور جہاز پر سفر کرنے کےلئے حکومت ،فوج فلائنگ کلب ےا چارٹرڈ سروس کا جہاز رےکوزےشن کئے جانے کی منظوری دی گئی جبکہ چیئرمےن صاحب رےکوزےشنڈ جہاز پر گھر کے 4افراد کو ساتھ لے جا سکےں گے ۔سابق چئےرمےن سےنےٹ کو 12 ملازمےن کا عملہ ملے گا اور رہائش گاہ پر سےکورٹی کے 6اہلکار تعےنات ہوں گے ۔فضائی حادثے کی صورت مےں معاوضہ 3لاکھ سے بڑھا کر اےک کروڑ کر دےا گےا ۔چیئرمےن سےنےٹ کا صوابدےدی فنڈ 18لاکھ روپے کر دےا گےا ۔اس کے علاوہ ارکان سےنےٹ کا سفر بذرےعہ سڑک 10روپے سے بڑھا کر 30روپے فی کلو مےٹر کر دےا گےا ۔اےک طرف ےہ عےاشےاں اور دوسری طرف پنجاب مےں سب سے کمزور اور بے بس بوڑھے پنشنرز پر معاشی چھری چلا دی گئی ۔ےہ بے چارے نہ تو گھر سے نکل کر احتجاج کر سکتے ہےں نہ دوسرے طبقات کی طرح دھرنا دےنے کی سکت رکھتے ہےں ۔عمر کا انتہائی اہم حصہ ان بزرگوں نے ملک و قوم کی نذر کےا ہے ۔کسی مہذب اور منصفانہ معاشرے مےں بزرگ بوڑھوں کے خصوصی حقوق مقرر ہوتے ہےں ۔انہےں سینئر سٹےزن کا درجہ حاصل ہوتا ہے ۔وفاقی وزےر خزانہ اسحاق ڈار کے پےش کردہ بجٹ مےں سرکاری ملازمےن کی تنخواہوں مےں اضافہ اور پنشن مےں 17.5فےصد اضافے کے علاوہ کوئی دوسرا پہلو زےادہ مثبت نظر نہےں آتا تھا لےکن صد افسوس کہ پنجاب کی نگران حکومت کو ےہ اضافہ بھی گراں گزرا اور انہوں نے پنشنرز کے ساتھ 5فےصد اضافے کا مذاق کےا ۔وزےر اعظم مےاں شہباز شرےف نے خود بجٹ تقرےر سے قبل فرماےا تھا کہ ڈالر کی اونچی اڑان اور مہنگائی کے عفرےت نے تنخواہ دار ملازمےن اور پنشنرز کا جےنا دوبھر کر دےا ہے ۔ےہ مےاں صاحب کے اپنے الفاظ ہےں کہ مہنگائی کی وجہ سے تنخواہےں اور پنشن آدھی رہ گئی ہےں جن پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے ۔اب مےاں صاحب سے ےہی سوال ہے کہ اےک طرف سےنےٹ چیئرمےن اور ڈپٹی چئےرمےن کےلئے مراعات کے ڈھےر اور دوسری طرف مجبور ومقہور پنشنرز سے ےہ سلوک ؟پنشنرز کے ساتھ روا رکھا گےا ےہ سلوک حکومت کے ان دعوﺅں کی بھی نفی ہے کہ ہم پسے اور کمزور طبقوں کو اوپر اٹھانے آئے ہےں ۔ اکابرےن اختےار سے ےہی گزارش کرنا ہے کہ خدارا سرکاری عہدوں پر کام کر کے فارغ ہونے والوں کو اتنا حقےر نہ کر دےجےے،اپنے انجام کے پےش نظر ان سے بہتر سلوک کےجےے ۔ اےڈم سمتھ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”ثروت اقوام “ مےں لکھا ہے کہ ”ہر بڑے معاشرے کا زےادہ تر حصہ مختلف قسم کے ملازموں ، مزدوروں اور کارکنوں پر مشتمل ہوتا ہے جس تدبر سے اس بڑے حصے کے حالات بہتر ہو سکےں وہ کل کےلئے باعث زحمت و تکلےف نہےں سمجھی جا سکتی جس معاشرے کا بڑا حصہ غرےب اورخستہ حال ہو اسے ےقےناترقی پذےر اور خوشحال نہےں کہا جا سکتا۔“
پنجاب بجٹ مےں پنشنرز سے یہ ناروا سلوک کےوں؟
