مورخہ 22 اپریل 2025 کو ہندوستان کے مقبوضہ جموں و کشمیر کے پہلگام علاقے میں ایک دہشت گردانہ حملہ ہوا، جس میں متعدد زائرین ہلاک اور زخمی ہوئے۔ اس واقعے کو بھارت پاکستان پر دبا ؤڈالنے، عالمی سطح پر بدنام کرنے اور کشمیر میں اپنی ظالمانہ پالیسیوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے اور موجودہ حالات میں پاکستان کو کمزور سمجھتے ہوئے 7 فروری 2019 کی خفت مٹانے، دنیا کو اپنی طاقت دکھانے اور پاکستان کے اندر دہشت گردی پھیلانے کیلئے کچھ دفاعی مقاصد بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کالم میں ہندوستان کے ممکنہ دفاعی مقاصد کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ سب سے پہلے تو اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہندوستان کے پاس کون سے ممکنہ آپشن ہیں جو وہ بروئے کار لا سکتا ہے۔ ان میں سب سے پہلے پاکستان کے خلاف جنگ کا اعلان اور گلگت بلتستان کے منتخب علاقہ جات میں محدود زمینی جارحیت کی جا سکتی ہے تاکہ اس علاقے میں سی پیک پر ہونے والے کام کو مکمل طور پر روکا جا سکے۔ دوسرے نمبر پر پاکستان کے خلاف ایک انتہائی محدود زمینی سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ رچایا جا سکتا ہے اور لائن اف کنٹرول کے ایسے حصے میں جہاں ہندوستانی فوج مضبوط پوزیشن میں بیٹھی ہو وہاں لائن اف کنٹرول کو پار کر کے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے تاکہ ہندوستانی عوام کو بے وقوف بنایا جا سکے اور وزیراعظم مودی کی لیڈرشپ کی دھاک بٹھائی جا سکے۔ تیسرے نمبر پر لائن اف کنٹرول کے پار فضائی حملہ کیا جا سکتا ہے جو بہت محدود اور تیز رفتار ہوگا تاکہ ہندوستانی جہاز لائن اف کنٹرول کو پار کر کے اپنا اسلحہ گرا کر بغیر کوئی نقصان اٹھائے جلد سے جلد واپس پہنچ سکیں۔ چوتھے نمبر پر یہ دونوں آپشن یعنی نام نہاد سرجیکل سٹرائیک اور ہوائی حملہ اکٹھے بھی ہو سکتے ہیں. پانچواں آپشن پاکستان کے اندر منتخب اہداف پر میزائل حملہ ہے ہندوستان یہ دعوی کرے گا کہ ہم نے پاکستان کے اندر موجود دہشت گردوں کے ٹریننگ کیمپ تباہ کر دیے ہیں مگر یہ بات چونکہ ہندوستان پر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر مندرجہ بالا کوئی بھی ایسی کاروائی کی گئی تو اس کے ہندوستان کو بہرحال سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے جیسا کہ فروری 2019 میں ہو چکا ہے۔ اب چھٹے آپشن کی بات کرتے ہیں اس میں ہندوستان اپنی فوج کی منتخب علاقوں میں صرف موبیلائزیشن کرے گا جو لائن اف کنٹرول کے علاوہ بین الاقوامی بارڈر پر بھی ہو سکتی ہے یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر ہندوستان کوئی بھی عملی اقدام کرے گا تو وہ لائن اف کنٹرول پر ہی کرے گا کیونکہ متنازعہ علاقہ اور حقیقی بین الاقوامی بارڈر میں بہت فرق ہوتا ہے ہندوستان کبھی بھی بین الاقوامی بارڈر پر کوئی عملی اقدام نہیں کرے گا البتہ اگر فوجوں کو صرف دکھاوے کے لیے موبلائز کرنا ہو تو وہ بین الاقوامی بارڈر کے پاس بھی کی جا سکتی ہیں۔ اب اصل سوال یہ ہے کہ اس موبلائزیشن کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا۔ راقم کی دانست میں ہندوستان کے زیر بحث تمام آپشنز میں پاکستان کے لیے یہ سب سے زیادہ خطرناک ہوگا کیونکہ ہندوستان بجائے کوئی عملی اقدام کر کے ہزیمت اٹھانے کے اس موبلائزیشن سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے جس میں ایک جنگی ماحول پیدا کر کے دہشت گردی کے مسئلہ کو بین الاقوامی سطح پر پریس کی شہ سرخیاں بنانا اور پاکستان پر الزام کو سچ ثابت کرنے کا پروپیگنڈا کر کے جو یک طرفہ اقدامات کیے جا چکے ہیں ان کو جائز قرار دینا۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ہندوستان کا جو بھی عملی اقدام ہوگا وہ تو فوری کرنا پڑے گا اور پھر اس کا پاکستان کی طرف سے ایک بھرپور جواب بھی ائے گا اس موقع پر چونکہ کھلی جنگ کا خطرہ بہت بڑھ جائے گا تو بین الاقوامی طاقتیں اس کو رکوانے کے لیے میدان عمل میں آ جائیں گی اور ساری دنیا کی توجہ ہندوستان کے اصل مقاصد سے ہٹ کر صرف اس جنگ کو ختم کروانے پر مرکوز ہو جائے گی جبکہ اگر فوجوں کا سٹینڈ اف ہو جاتا ہے تو ممکنہ جنگ کو رکوانے کے لیے جو بھی اقدامات ہوں گے اس میں سب سے پہلے اس سچویشن کے اسباب زیر بحث آئیں گے اور ہرجگہ ہندوستان کا پاکستان پر الزام زیر بحث آئے گا ساتھ ساتھ ہندوستانی اور بین الاقوامی میڈیا پاکستان کو دہشت گردوں کی مدد کرنے والا ملک بنا کر پیش کرتا رہے گا اور جتنی بحث لمبی ہوگی پاکستان کو بین الاقوامی طور پر اتنا ہی زیادہ نقصان ہوگا کیونکہ ہندوستانی اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ ساتھ ہندوستانی سفارت کاری بھی شامل ہو جائے گی۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا میں ہندوستانی سفارت کاری پاکستان سے بدرجہا بہتر ہے اور شاید پاکستان اس پروپیگنڈے کا توڑ بھی نہ کر سکے اور دفاعی پوزیشن میں چلا جائے اور ہندوستان اپنے مقاصد حاصل کر لے۔ دوسرے نمبر پر پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تیسرے نمبر پر پاکستان میں اگر کوئی بین الاقوامی ادارے یا افراد سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں تو وہ نہیں کریں گے۔ چوتھے نمبر پر سیاحت جو بین الاقوامی طور پر پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے اس کے ساتھ اندرونی سیاح بھی سفر سے گریز کریں گے۔ پانچویں نمبر پر پاکستانی معیشت جو پہلے ہی زمین بوس ہے اس پر نیا بوجھ پڑے گا کیونکہ ہندوستان کے جواب میں ہمیں بھی کراچی سے لے کر سکردو تک موبلائزیشن تو کرنی ہی پڑے گی جو ملکی خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہوگا۔ چھٹے نمبر پر سی پیک پر کام پہلے ہی سست ہو چکا ہے اس کے بعد مکمل طور پر بند ہو جائے گا اور حالات نارمل ہونے تک بند ہی رہے گا۔ اب آخری آپشن کی بات کرتے ہیں جو سب سے خطرناک اور ہندوستان کا سب سے بنیادی آپشن ہو سکتا ہے جس کے لیے ہندوستان کی منصوبہ بندی پہلے ہی مکمل ہو چکی ہے، وہ ہے پاکستان کے اندر دہشت گردی اور بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں مسلح اور دہشت گرد تنظیموں کی کاروائیاں تیز کرنا۔ ان حالات میں چونکہ پاکستان کو بلوچستان اور خیبر پختون خواہ سے فوج نکال کر ہندوستان کے ساتھ بارڈر اور لائن اف کنٹرول پر لگانی پڑے گی تو ان دونوں صوبوں میں بہت بڑا سیکیورٹی کا خلا پیدا ہو جائے گا جو پولیس اور سول مسلح دستوں کے کنٹرول سے باہر ہو جائے گا۔ پاکستان کی تمام سول اور ملٹری انٹیلیجنس ایجنسیاں بھی ہندوستان کے خلاف اپریشن میں الجھ جائیں گی تو یہ ایک ایسا وقت ہوگا جب ہندوستانی ایجنسیاں ان دہشت گرد اور عسکریت پسند تنظیموں کو بلا خوف و خطر استعمال کریں گی جس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردی ایک وبا کی طرح پھیل جائے گی جس سے مملکت خداداد اور کمزور ہو جائے گی۔ بارڈر پر فوجوں کی ڈپلائمنٹ جتنی لمبی ہوتی جائے گی پاکستان کے لیے ہر لحاظ سے، مثلا دفاعی اقتصادی، سیاسی، سماجی، بین الاقوامی، امن وامان اور دہشت گردی کے حوالے سے یہ اتنی ہی زیادہ خطرناک ہوتی جائے گی۔ یاد رہے کہ اس تمام اپریشن میں ہندوستان کو سرائیل کی مکمل حمایت حاصل ہوگی کیونکہ اس خطے میں جتنی کشیدگی بڑھے گی دنیا کی نظریں فلسطین میں ہونے والے مظالم سے ہٹ جائیں گی اور برصغیر میں ہونے والی ممکنہ جنگ، جو کہ ایٹمی قوت کی حامل دو فوجوں کے درمیان ہو سکتی ہے، اس پر مرکوز ہو جائیں گی۔ ہندوستانی اور بین الاقوامی میڈیا اس کو اتنا سنسنی خیز بنا دے گا کہ مشرق وسطی میں غزا کی تباہی اور شہادتیں اور یمن میں ہونے والی خوفناک بمباری کسی کو نظر نہیں ائے گی۔ ان حالات میں بڑی طاقتیں بھی پاکستان سے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کریں گی اس لیے یہ آپشن پاکستان کے لیے ایک انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔موجودہ صورتحال مملکت خداداد کی قومی سلامتی اور بین الاقوامی وقار کے لیے نہایت حساس ہے۔ ان حالات میں ایک مربوط، تیز رفتار، اور پیشہ ورانہ سفارتی حکمت عملی کے ذریعے نہ صرف بھارت کے پروپیگنڈے کا مثر جواب دیا جائے بلکہ پاکستان کی بین الاقوامی پوزیشن کو بھی مضبوط بنایا جائے۔ موجودہ صورتحال انفرادی اور اجتماعی قومی ذمہ داری، اتحاد و یگانگت، قومی یکجہتی، حکومت وقت کی دانشمندی اور مدبرانہ حکمت عملی کی متقاضی ہے۔
تحریر:عبدالجبار ترین