جنرل عاصم منیر ایک غیر معمولی اور پیشہ ورانہ خوبیاں رکھنے والے سپہ سالار ہیں جو صد فی صد میرٹ ہی کی بنیاد پر آرمی چیف بنے ہیں ، ان کی تعیناتی کی چیلنجز کا سامنا کرنے کے بعد اور ایک طویل مشاورت کے ساتھ منظر عام پر آی تھی ، بطور آرمی چیف ان کی تقرری ان دنوں سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک سیاسی مسلہ بھی بنی رہی ، بلاشبہ جنرل عاصم منیر سپہ سالار بننے سے پہلے بھی ایک بہت ہی زبردست آفیسر اور باکمال کمانڈر رہے ہیں ۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں موصوف پر یہ بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ادارے کو سیاست سے بچائے رکھیں اور عوام میں فوج سے محبت و ھمدردی قائم دام رکھیں بلکہ اس ضمن میں مزید شعور بیدار کریں کیونکہ عہد موجود میں کی اہم معاملات اور اہم فیصلوں کے تناظر میں سب کی نظریں سپہ سالار پر جمی ہوی ہیں ۔ میرے علاقے حسن آباد راولپنڈی پوٹھوہار سے تعلق رکھنے والے جنرل عاصم منیر میرے خیال میں وہ پہلے سپہ سالار ہیں جو حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ سید بھی ہیں ، اللہ حاکم برحق و رحیم و کریم ان پر اپنا خصوصی فضل و کرم فرمائے ، نہ صرف عوام بلکہ خاص و عام تمام دعاگو ہیں کہ اللہ قادر و قدیر اس ملک و قوم کے قابل فخر فوجی سربراہ کو اور پاک فوج کو ہر میدان اور ہر امتحان میں سرخرو اور کامران فرمائے ۔ آمین . چند دن قبل آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ملک و قوم کو اور بالخصوص غریب عوام کو اس شدت بھوک و پیاس میں ایک آس دی ہے ، امید کی باتیں کی ہیں اور دل کی باتیں کی ہیں بلکہ دل کو چھو لینے والی باتیں کی ہیں ۔ پاکستان منرل سمٹ کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ معدنیاتی پروجیکٹس عوام کی ترقی کا زینہ ہیں ، ہماری ذمہ داری ہے کہ مل کر ملکی معیشت میں کردار ادا کریں اور کبھی امید کا دامن نہ چھوڑیں ، ہماری زمین معدنیات سے مزین ہے ، بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دیتے ہیں کہ پاکستان میں چھپے خزانوں کو دریافت کریں ۔ انہوں نے کہا کہ اپنے ملک پر نظر ڈالیں ، برف پوش پہاڑوں سے صحراں کی وسعت تک ، سورہ رحمن میں اللہ نے فرمایا کہ اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلا گے ۔ اگر ہمارا یہ مشترکہ عزم رہا تو آسمان کی بلندیاں ہماری حد اور اس کی وسعتیں ہماری منتظر ہیں ۔ ISPR کے مطابق جنرل عاصم منیر نے کہا کہ اللہ ان کی مدد کرتا ہے جو خود اپنی مدد آپ کرتے ہیں ، پاکستان منرل سمٹ ملک میں غیرملکی سرمایہ کاروں کیلیے آسان کاروباری اصول وضع کرتی ہے جس میں آسان شراط اور غیر ضروری التوا سے بچا جا سکے ، انہوں نے امید کا دامن تھامے رکھنے پر زور دیا اور قرآن کی سورہ بقرہ کی آیت 155 اور 156 کی تلاوت فرمای جس کا ترجمہ ہے ، اور ہم ضرور تمہیں خوف اور بھوک سے اور جان و مال و ثمرات سے آزمایں گے ، ان پر جب کوی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں بےشک ہم اللہ کی طرف سے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی اس بےمثال بلکہ لازوال گفتگو سے آج کے عہد کی ان محرومیوں ، مایوسیوں اور اداسیوں سے نکل کر ایک روشن مستقبل کی جانب سفر کر جانے کے حوالے سے اپنے سپہ سالار کی سوچ اور پازیٹو اپروچ کا پتا چلتا ہے ۔ لاہور دھرتی سے شبہ طراز کے الفاظ میں :
پھر سے کوزے میں بند کر دریا
دل دریا کو پھر سے سمندر کر
محترمہ مریم نواز نے مظلوم رضوانہ کی عیادت کرتے ہوئے کہا ستم رسیدہ رضوانہ کو دیکھ کر دکھ ہوا ، ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایں ، مجرم کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو اسے قانون کے شکنجے میں لانا لازم ہے ۔ بصد ادب عرض ہے کہ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کرنے کی نہیں ، یہاں قانون سب کے لیے برابر ہے یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔، قانون وہ مکڑی کا جالا ہے جس میں کمزور کیڑے مکوڑے تو پھنس جاتے ہیں مگر بڑے بڑے مگر مچھ اس کو پھاڑ کر بھاگ جاتے ہیں ۔ :
زندگی کیاکسی مفلس کی قباہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
پی ڈی ایم کے تجربہ کاروں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اہل پاکستان کی قسمت کی کنجی آئی ایم ایف کی مٹھی میں ڈال دی ہے ، مہنگائی اسمانوں سے باتیں کر رہی ہے ، غریب عوام کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے ، تاریخ اٹھا کر دیکھیں کہ ملک و قوم کا یہ حال تو کبھی بھی نہ تھا جو آج ہے ، عصر حاضر میں دو وقت کی روٹی کا بندوبست تو کشمیر فتح کرنے کے مترادف ہو گیا ہے ۔ شعیب بن عزیز کے الفاظ میں :
شام گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا تو نظر نہیں آتا
الغرض ان حالات میں ارمی چیف کی یہ سبق اموز تقریر ہی تاریکیوں میں روشنی کی ایک کرن سمجھی جا رہی ہے اور اس کے علاوہ دوسرے بڑے چیف یعنی چیف جسٹس اف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی بڑی مثبت اور بروقت بات کی ہے کہ ملک ہی نہیں بلکہ عدالت بھی نازک دور سے گزر رہی ہے ، ہم ائین و عوام کا دفاع کریں گے اور کسی بھی غیر ائینی اقدام کو روکیں گے ۔