Site icon Daily Pakistan

پی آئی اے کی نجکاری: ماضی، حال اور مستقبل

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی نجکاری کا عمل پای تکمیل کو پہنچا، جس میں ملک کے متعدد معروف اداروں نے حصہ لیا۔ اس شفاف اور تاریخی عمل میں ملک کا نامور صنعتی ادارہ عارف حبیب گروپ کامیاب قرار پایا، جس نے 135 ارب روپے کی سب سے بلند بولی دے کر یہ اعزاز حاصل کیا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے نجکاری کے عمل کو صاف و شفاف بنانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے، حتی کہ پورا عمل ملک کے تمام بڑے ٹیلی ویژن چینلز پر براہِ راست دکھایا گیا، اور یوں عارف حبیب گروپ کی کامیابی کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔یہ امر اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے قومی ایئر لائن مسلسل خسارے کا شکار تھی اور گزشتہ چند برسوں سے اس کی نجکاری کی خبریں زیرِ گردش تھیں۔ بالآخر 23دسمبر کو نجکاری کی تاریخ طے پائی، جس موقع پر ایک باوقار تقریب منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں مختلف اداروں کے سربراہان نے شرکت کی اور بولی کے عمل میں حصہ لیا۔ سب سے زیادہ بولی عارف حبیب گروپ کی جانب سے دی گئی، جو 135 ارب روپے تھی، اور نجکاری کمیشن نے باقاعدہ طور پر اس کامیابی کا اعلان کیا۔جہاں تک 135 ارب روپے کی رقم کا تعلق ہے، اگر قومی ایئر لائن کی تاریخی حیثیت، عمر اور اقوامِ عالم میں اس کی اہمیت کو مدنظر رکھا جائے تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس ادارے کی اصل قدر و قیمت اس رقم سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر اس ادارے کی ساکھ، شہرت اور گڈ وِل کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ رقم اس کے مقابلے میں بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ تاہم ادارے کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر، اور اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس کے مالکانہ حقوق ایک پاکستانی ادارے اور ایک ایسے معزز خاندان کے سپرد کیے گئے ہیں جنہوں نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ تحریکِ پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا، ہم ربِ العالمین کا شکر ادا کرتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی اس قومی ورثے کو نئی قیادت میں محفوظ رکھے اور اس ادارے کو ایک مرتبہ پھر ترقی و عروج کی راہوں پر گامزن فرمائے۔ آمین۔یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہی وہ قومی ایئر لائن ہے جس نے عرب امارات کی ایئر لائن ایمرٹس کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا، حتی کہ بین الاقوامی فضائی حدود کے استعمال کے لیے اپنا لوگو فراہم کیا۔ اسی طرح دیگر کئی ممالک کی ایئر لائنز نے بھی اس ادارے کے تجربے سے فائدہ اٹھایا۔ ایک وقت تھا کہ یہ ایئر لائن عالمی سطح پر ماہر اور تجربہ کار افراد پر مشتمل ایک مثالی ادارہ سمجھی جاتی تھی۔ پھر آخر وہ کون سا طوفان آیا کہ ایک عالمی شہرت یافتہ ایئر لائن کو ناپسندیدہ قرار دے دیا گیا، یورپی ممالک سمیت مختلف ریاستوں میں اس پر پابندیاں عائد ہو گئیں، اور ایک منافع بخش ادارے کو زوال کی طرف دھکیل دیا گیا۔یہ سوال اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے کہ آخر اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟ کس نے اس ادارے کو ترقی کی شاہراہ سے ہٹا کر بربادی کے دہانے پر پہنچایا؟ کیوں اصل مجرموں کو سزا دینے کے بجائے ادارے کو اجتماعی سزا دی گئی؟ تاریخ گواہ ہے کہ لاپرواہی اور مجرمانہ خاموشی بھی جرم میں شراکت کے مترادف ہوتی ہے، اور تاریخ ایسے کرداروں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایک وفاقی وزیر نے قومی اسمبلی کے فلور پر، وزیرِ اعظم، اسپیکر اور اراکینِ اسمبلی کی موجودگی میں، قومی ایئر لائن کیخلاف انتہائی غیر شائستہ اور گھٹیا زبان استعمال کی۔ آج اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بھی قلم لرزتا ہے، مگر اس وقت ایوان کی اجتماعی خاموشی سوالیہ نشان بن کر رہ گئی۔ افسوس کہ آج آئین کی بالادستی کے دعوے کرنیوالے، اس وقت خاموش تماشائی بنے رہے۔ اگر اس وقت آئین کی خلاف ورزی پر ازخود نوٹس لیا جاتا تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔آج کے حکمرانوں سے مطالبہ ہے کہ قومی ایئر لائن کو تباہی سے دوچار کرنیوالے عناصر اور ان کے سہولت کاروں کیخلاف جامع تحقیقات کرائی جائیں، اور انہیں سخت ترین سزائیں دی جائیں، تاکہ آئندہ کوئی بھی ملک دشمن قوت قومی اداروں کو نقصان پہنچانے کی جرات نہ کر سکے۔ مہذب اور آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے ممالک میں ایسے جرائم پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔اسی تناظر میں پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر اور اراکین سے بھی مطالبہ ہے کہ وہ اپنے سابقہ وزیر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کریں اور اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی کوتاہیوں پر توبہ کریں۔اس پورے عمل پر وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم قابلِ تحسین ہے۔

Exit mobile version