Site icon Daily Pakistan

کیا 2023انتخابات سے کوئی فائدہ ہوگا؟

عمران خان کی ضد،انا اور اقتدار میں رہنے کےلئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تو ڑی گئی ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ بہت جلد عام انتخابات ہونے والے ہیں ۔ مگر یہ بات مسلم ہے کہ آئندہ 2023 کے عام انتخابات میں بھی ماضی کی طرح وہی روایتی 3سے 5 ہزار تک سیاست دانوں میں امیدوار اقتدار میں آئیں گے اور بعد الیکشن بھی حالات ایسے کے ویسے رہیں گے۔ کیونکہ ان میں نہ تو کوئی نہیں ہوگا اور نہ کسی کے پاس موثر پلاننگ اور حکمت ہوگی جو ملک کو اقتصادی ، مالی اور دہشت گردی کی بحران سے نکال سکیں۔ اگر پاکستان کے عام انتخابات کی تا ریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ وطن عزیز میں 11 عام انتخابات ہوئے ہیں۔جس میں 1962،1970، 1977، 1985، 1990، 1993، 1997 ، 2002،2008، 2013 اور2018کے انتخابات شامل ہیں ۔ 1970 کے انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ اور مغربی پاکستان سے پاکستان پیپلز پا رٹی اور دوسرے کئی چھوٹی بڑی سیاسی پا رٹیاں میدان میں تھیں۔ َعوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں الیکشن نتائج کی رو سے سب سے زیادہ نشستیں جیتیں ۔ نتائج کی رو سے عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمان کو وزیر اعظم بنانا چاہئے ۔مگر اسٹبلشمنٹ نے عوامی رائے کا احترام نہ کرتے ہوئے ذولفقار علی بھٹو کو وزیر اعظم بنا دیااور پاکستان دولخت ہوگیا۔ دوسرے عام انتخابات 1977میں ہوئے ۔اپوزیشن نے الیکشن نتائج کو رد کیا اور بھٹو کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا جو بعد میں نظام مصطفی کی شکل اختیار گئی ۔دونوں پا رٹیوں میں کشیدگی بڑھی ۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا نے آئین معطل کرکے ما رشل لاءلگا دی۔ بھٹو کو قتل کیس میں پھانسی دی گئی ۔ تیسرا الیکشن 1985 میں ہوا جس میں ضیا نے سیاسی پا رٹیوں پر انتخا بات میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی تھی۔عام انتخا بات سے پہلے ضیاءنے ستمبر 1979میں بلدیاتی الیکشن کراویا اور جنوری 1982 میں 228 ارکان کی مجلس شوری بنائی۔ضیاءالحق نے ۵۸۹۱ میں غیر سیاسی بنیا دوں پر الیکشن کرانے کا اعلان کیا ۔ 1985 کے عام انتخابات میں سندھ سے جا گیر دار محمد خان جو نیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔مگر ضیاءالحق نے جونیجو کی حکومت جنوری 1988 کواس بنا پر ختم کر دی کہ بقول ضیاءالحق ،جونیجو اسلامی نظام نافذ کرنے کا ایجنڈہ جا ری نہ رکھا۔ضیاءالحق جہاز کریش میں وفات ہونے کے بعدسینیٹ چیر مین غلام اسحق خان نے قائم مقام صدر کے عہدے کا حلف اُٹھاتے ہی 1988 کے عام انتخا بات کا اعلان کیا۔اس الیکشن میں دو بڑی سیاسی پا رٹیوں یعنی پی پی پی اور 9 پا رٹی کی اسلامی جمہو ری اتحاد نے حصہ لیا۔پی پی پی بانی ذولفقار علی بھٹو پھانسی کے بعد یہ ایک مظلوم پا رٹی کے طو ر پر الیکشن میں کامیاب ہوئی۔ 1988 کے انتخابات میں پی پی پی نے قومی اسمبلی میں 93 اور اسلامی جمہو ری اتحاد نے 54 نشستیں جیتیں۔ مگر اگست 1990 کو بینظیر حکومت کرپشن بد عنوانی اور امن و آمان کی بگڑتی ہوئی صورت حال بہانے ختم کر دی گئی اور نگران وزیر اعظم مصطفی جتوئی بنا ئے گئے ۔ بی بی حکومت ختم ہونے کے بعد پی پی پی ، پی ایم ایل (ق)، تحریک استقلال ، اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے پی ڈی ایف کی شکل میں ایک اتحاد بنائی۔ اور 1990 کے عام انتخابات میں اسلامی جمہو ری اتحاد 107 نشستیں اور پی ڈی ایف نے 44 نشستیں جیتیں۔ وزیر اعظم نواز شریف بنایا گیا۔1992 میں نواز شریف اور غلام اسحق خان کے اختیارات کے تقسیم پر اختلافات بڑھے ۔ چیف آف آرمی سٹاف جنجو عہ کے انتقال کے بعد علام اسحق خان اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے جنرل وحید کو چیف آف آرمی سٹاف بنا دیاجو نوازکو پسند نہیں تھا۔نوا زشریف نے اعلان کیا کہ وہ1993 میں صدر کے اختیارات کم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اُنکے حکومت کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ غلا م اسحق خان نے کرپشن بد عنوانی کی بنا پر نواز شریف حکومت ختم کر دی۔اسکے بعد 1993 کے اتخابات کا اعلان کیا گیا۔ اس میں تین بڑی سیاسی پا رٹیوں نے شرکت کی جس میں پی پی پی ، پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان اسلامک فرنٹ شامل تھے۔ الیکشن میں پی پی پی نے 86 نشستیں لیں جسکے نتیجے میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بنی۔ اسکے بعد پانچویں الیکشن 1997 کو ہوئی۔ اس لیکشن میں پی پی پی، پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی نے حصہ لیا اور جماعت اسلامیءنے اس میں حصہ نہیں لیا۔ مسلم لیگ(ن) نے 207 نشستیں جیتیں جسکے نتیجے میںنواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔چھٹا الیکشن2002 میںمشرف نواز شریف جلا وطنی کے دور میں ہوا۔ اس میں ایک سیاسی پا رٹی پاکستان مسلم لیگ (ق) اور دوسری سیاسی پا رٹیاں متحدہ مجلس عمل اور پی پی پی تھیں۔ قومی اسمبلی کے 342نشستوں میں مسلم لیگ (ق) نے 122 نشستیں جیتیں۔نتیجتاً پہلے جمالی اور بعد میں شوکت عزیز وزیر اعظم بنا ئے گئے ۔ ساتواں الیکشن2008 میں ہوا ۔ اس میں پی پی پی، پی ایم یل(ن) و (ق) نے حصہ لیا ۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے اس الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ اس الیکشن میں پی پی پی نے 95 نشستیں جیتیں جسکے نتیجے میں پی پی پی کے یو سف رضا گیلانی اور بعد میں پر ویز اشرف وزیر اعظم بنائے گئے۔2013 کے عام انتخابا ت میں پاکستان مسلم لیگ نے ایک کروڑ 14لاکھ ووٹ لئے جسکے نتیجے میں نواز شریف وزیر اعظم بنا دئے گئے ۔ 2018 انتخابات جو مکمل طور پر اسٹبلشمنٹ کے زیر سایہ ہوئے ۔ اس میں عمران خان نے جوڑ توڑ کرکے وفاق،پنجاب ، خیبر پختونخوا ، بلو چستان ،آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں بنائیں۔ ابھی 2023 الیکشن کی آمد آمد ہے ۔ اگر الیکشن ریفارمز کے بغیر یہ انتخابات کئے گئے تو اس میں بھی وہی روایتی سیا ست دان سامنے آئیں گے ۔

Exit mobile version