پاکستان میں اعلی تعلیم و تحقیق کی معیار بندی اور یکساں تنظیم کا سب سے اہم ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان ہے۔اس ادارے نے پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں کی خود مختاری پر اس حد تک گرفت کر رکھی ہے ،اور اپنی مختاری کو اس حد تک بڑھا لیا ہے ،کہ بالآخر آب ن لیگ کے وزرا نے اس کے چیئرمین کا نام ہی ڈاکٹرمختار احمدرکھ چھوڑا ہے۔ چند روز پہلے وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن ترمیمی بل 2023 پیش کیا گیا ۔یہ بل بقول شرلی بے بنیاد شرکائے اجلاس کی طرف سے فی الفور منظور کر لیا گیا۔ ستم ظریف کا خیال تھا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی اب تک کی کارکردگی اور پاکستان میں اعلی تعلیمی اداروں میں تعلیم و تحقیق کے معیار کی غارت گری کے حوالے سے وفاقی کابینہ سخت نوٹس لیتی لیکن،کیونکہ کابینہ اجلاس میں ن لیگ سے تعلق رکھنے والے ایسے وزرا بھی پکے پکے منہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے ، جن کے اپنے زیر اثر پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں کے ایچ ای سی کے ساتھ بھاری مفادات وابستہ ہیں اور جب ہائر ایجوکیشن کمیشن ترمیمی بل کا ایجنڈا آئٹم زیر بحث آیا ،تو کم از کم دو وفاقی وزرا نے انکھیں ادھر اودھر گھمانی شروع کردیں۔ یہ وہی ن لیگی وزرا ہیں جنکے پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں کے انویسٹرز سے براہ راست مفادات وابستہ ہیں ،ان وزرا میں سے ایک نے خود کو منصوبہ بندی کا ماہر مشہور کر رکھا ہے۔ان کے طریقہ واردات کی مناسبت سے بعض لوگ انہیں ن لیگ کا اسد عمر بھی کہتے ہیں ۔ وہ ہلکی بات بھی اتنے وزنی دلائل اور انداز سے کرتے ہیں کہ سننے والا سچ سمجھنے لگتا ہے ۔وہ موقع پر چپ رہتے ہیں ،لیکن بعد میں صورت حال کے مطابق اپنا موقف بنا کر چلا دیتے ہیں ۔ دوسرے وفاقی وزیر اگرچہ دفاع سے تعلق رکھتے ہیں لیکن چونکہ وہاں زبان کشائی کی اجازت نہیں ہوتی تو دیگر تمام غیر متعلق معاملات پر جونسا جونسا کہہ ارشادات فرماتے رہتے ہیں۔ ان کو دیگر ن لیگیوں کی طرح علامہ اقبال کے نام اور مقام سے بھی مسئلہ ہے۔یہ وہی ہیں جن کی وجہ سے سیالکوٹ میں علامہ اقبال یونیورسٹی ابھی تک قائم نہیں کی جا سکی ۔اسی اجلاس میں شامل وفاقی ایک اوروزیر اتنی مہارت سے ایک پنجابی گالی استعمال کر جاتے ہیں ،کہ سننے والے کو پندرہ بیس منٹ بعد پتہ چلتا ہے کہ کوئی غلط بات ہو چکی ہے۔ اس تازہ اور مجوزہ ترمیم کے بعد چیئرمین ایچ ای سی کی مدت ملازمت دو سال سے بڑھا کر تین سال کردی گئی ہے ،ساتھ ہی وزیر اعظم کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ جب چاہے، چیئرمین ایچ ای سی کو مدت ملازمت مکمل ہونے سے پہلے بیک بینی دو گوش باہر نکال سکیں گے۔اس مجوزہ ترمیم کے بعد ہائر ایجوکیشن کمیشن صرف وزیر اعظم کے سامنے جوابدہ ہو گا۔ ڈاکٹر عطاالرحمن نے بطور چیئرمین وفاقی وزیر کا درجہ حاصل کر رکھا تھا۔اس مفروضہ سائنسدان صاحب کی سب سے بڑی ایجاد دوسروں کی جہالت سے فائدہ اٹھانے کے فارمولے کی دریافت ہے۔وہ غیر ملکی انگریزی اخبارات میں چھپنے والے بعض مضامین کے اجزا کی بنیاد پر ایک اخبار میں کالم لکھ کر نت نئی سائنسی ترقیات کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں۔بہرحال ان کا چیئرمین کے لیے حاصل کردہ وفاقی وزیر والا منصب واپس لے لیا گیا ہے ۔اس مجوزہ ترمیمی بل کے منظور ہوجانے کی صورت میں ایچ ای سی ملک بھر میں اعلی تعلیمی اداروں کی واحد ریگولیٹری اتھارٹی بن جائے گی۔گویا دیگر صوبوں کی یونیورسٹیاں دوبارہ سے ایچ ای سی کے راست نشانے پر آجائیں گی۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اراکین کی تعداد بائیس سے کم کر کے تیرہ کر دی گئی ہے ۔یاد رہے کہ ایچ ای سی کا ایک رکن ایک تعلیمی ادارے کے اخراجات سے بھی مہنگا پڑتا ہے ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن ترمیمی بل اب وفاقی کابینہ کی کمیٹی برائے قانون سازی کے سامنے پیش کیا جائے گا ۔ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ملک میں پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں کے مفادات کے تحفظ اور فروغ کےلئے بے پناہ خدمات سر انجام دی ہیں ۔ یونیورسٹیوں کی خودمختاری کو اپنے متجاوز کردار کی وجہ سے ہڑپ کر لیا ہے۔ گویا تمام یونیورسٹیوں کے پارلیمنٹ سے منظور شدہ ایکٹ جگہ جگہ سے کتر کر رکھ دئیے ہیں۔اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عنقریب ہر یونیورسٹی کے مرکزی دروازے اور آڈیٹوریم میں جلی حروف کے ساتھ میر تقی میر کا یہ شعر لکھا نظر آئے گا؛
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
ترمیمی بل کی کابینہ سے منظوری کے بعد جب پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں کے انویسٹرز نے اپنے ایک نمائندے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال سے شکوہ کیا تو وہ توقع کے عین مطابق پکا سا منہ بنا کر موقف اپنایا ہے کہ؛ وہ ہائر ایجوکیشن ثرمیمی بل کی حمایت نہیں کرتے۔احسن اقبال نے انویسٹرز کو یہ نہیں بتایا کہ اجلاس کے دوران انہوں نے اس ترمیمی بل پر اپنے اختلافی دلائل پیش کیوں نہیں کیے تھے۔
پاکستان میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے ملبے پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کھڑا کرکے ملک کی مقتدرہ کی جہالت سے خوب فائدہ اٹھایا گیا ۔ان گنت تجاوزات اور بے شمار گناہ ہیں جو ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اعلیٰ تعلیم کے نام پر کیے ۔وہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس کسے یاد نہیں ،جسکے ساتھ مل کر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے عمائدین نے طالب علموں کی جیبوں سے نکلوائے گئے اربوں روپوں میں سے اپنا حصہ وصول کیا۔وہ تو بھلا ہو این ٹی ایس کے سربراہ کی جعلی ڈگری کا کہ انہیں یہ تماشا بند کرکے ملک سے کلٹی ہونا پڑا ۔ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کی جاری کردہ ڈگریوں کی تصدیق بھی اپنے ذمے لے کر اپنے دستر خوان میں توسیع کا اہتمام بھی کر رکھا ہے۔ حالانکہ ڈگری کی تصدیق صرف متعلقہ یونیورسٹی ہی کر سکتی ہے لیکن ایچ ای سی نے درمیان میں آڑھتی بن کر اپنا ڈھابہ بھی کھول رکھا ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یونیورسٹیاں اپنی خودمختاری پر نہ تو اصرار کرتی ہیں اور نہ ہی اس کا دفاع کرنے پر آمادہ ہیں۔اس کی وجہ ایچ ای سی کے وائس چانسلرز ہوتے ہیں۔ کسی بیرون ملک یونیورسٹی کا اصل پروفیسریہاں آکر کلاس میں نہیں پڑھائے گا۔ہاں بعض ،جو رضامند ہوں ،واقعتا غیر ملکی ہوں،وہ ایک محدود مدت کے لیے شاید آنے پر آمادہ ہوں؟پر پھر ان کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ الگ داستان ہے۔مقامی فیکلٹی انہیں اپنے "تیار کروائے گئے”آرٹیکلز بیرون ملک جرائد میں چھپوانے کے لیے دباو¿ ڈالتے ہیں۔دباو کام نہ آئے تو تعاون نہیں کرتے۔اچھا یہ تو تھا کہ اگر کوئی واقعی غیر ملکی نوجوان استاد یہاں آنے کا خطرہ مول لے سکے ۔ اگر کوئی پاکستانی پروفیسر کسی آبرومند اور حقیقی غیر ملکی یونیورسٹی میں ریگولر بنیادوں پر پڑھا رہا ہو،تو وہ یہاں کسی یونیورسٹی میں آ کر خوار نہیں ہونا چاہیں گے ہائر ایجوکیشن کمیشن ترمیمی بل میں ایسی کوئی اصلاحات شامل نہیں کی گیئں ،جو ایچ ای سی کو اس کی حدود کے اندر مقید کر سکیں۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کی تراش خراش
