غزہ کی پٹی میں سات روزہ جنگ بندی کے بعد حماس کے خلاف اسرائیل کی فوجی کارروائی دوبارہ شروع ہونے کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ امدادی گروپوں کو خدشہ ہے کہ ضروری ساز و سامان کی ترسیل ر±ک جانے سے انسانی صورت حال مزید خراب ہو جائیگی۔ایسے وقت میں مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور مدد ہمادی دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ہم غزہ میں امدادی سامان پہنچانے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی (یہودی) مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے بھی اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ یہودی کمپنیوں نے مسلم ممالک میں اپنی مصنوعات کا جال بچھایا ہوا ہے۔ میکڈونلڈ، کے ایف سی اور دیگر برانڈ مسلم ممالک سے ملنے والے منافع سے ہتھیار خرید رہے ہیں جو ہمارے فلسطینیوں پر استعمال کئے جا رہے ہیں ۔ اسی لئے یہودیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا، ان کی معیشت کو نقصان پہنچانا بہت ضروری ہے۔امریکہ اسرائیلی حکومت کو بچانے میں سب سے اہم کردار ادا کر رہا ہے اور فلسطینی خواتین اور بچوں کو قتل کرنے کےلئے اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے الا مرکزی فریق ہے۔یہودی لابی امریکہ پر حکمرانی کرتی ہے۔ اسی وجہ سے امریکی اسرائیل کیخلاف نہیں بولتے۔ اس سے پہلے کہ غزہ ملبے کا ڈھیر بن جائے اور انسانوں کے قبرستان کا منظر پیش کرے، عالم اسلام کو مظلوم فلسطینیوں کے حق میں بیانات کی بجائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ فلسطینیوں نے مجبور ہوکر مزاحمت اور جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ اسرائیل غاصب اور ناجائز ریاست ہے، اسلامی دنیا اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرے۔ جناب سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان کا کہنا ہے کہ دنیا میں امن اس وقت قائم ہو گا جب فلسطین کو اس کا حق ملے گا۔ فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کے حملے کے آغاز کے بعد سے اسلامی ممالک کے عوام غزہ کی پٹی میں رہنے والے فلسطینیوں کیخلاف اسرائیل کے انتہائی وحشیانہ فوجی حملوں جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں فلسطین کے دیگر حامیوں کی طرح اسرائیلی اشیاءکے بائیکاٹ کی عالمی تحریک میں شامل ہو گئے۔اس طرح نہ صرف اسرائیلی اشیا اور برانڈز بلکہ امریکہ اور بعض مغربی ممالک کی صیہونی حکومت کی حمایت کی وجہ سے مختلف مغربی مصنوعات اور برانڈز بھی ان اچانک مقبول پابندیوں کا واضح اور ٹھوس ہدف قرار پاچکے ہیں۔ابھی کچھ عرصہ قبل امریکی کونسل نے کے ایف سی، میکڈونلڈ اور دیگر یہودی اشیائے خورونوش کو حلال قرار دیا تھا ۔ یہ سب اسرائیلی معیشت کو سہارا دینے کےلئے امریکی کوشش تھی۔ مگر اب اسلامی کونسل کے ساتھ ساتھ امریکی کونسل نے بھی اسرائیلی مصنوعات کو حرام قرار دے دیا ہے۔ یورپ اور امریکہ کی تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں جو دنیا کے تمام بڑے بڑے ملکوں میں اپنا کار وبار چلا رہی ہیں اور اپنی مصنوعات کے ذریعہ ہر جگہ مارکیٹ پر چھائی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ تمام کمپنیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں جو ایک منصوبہ بند سازش کے تحت دنیابھر کے مسلمانوں کو کھلم کھلا سور یعنی خنزیر کی چربی کھلا رہی ہیں۔ بسکٹ اور کیک سمیت بیشتر بیکری اشیاءٹوتھ پیسٹ، سیونگ کریم، چیونکم، چاکلیٹ ‘ٹافی اور کارن فلیک، نیز ڈبہ بند اشیاءغذائی میں ڈبہ بند پھل اور پھلوں کے رس کے علاوہ ملٹی وٹامن کی گولیوں سمیت بیشتر ایلوپتھک دواو¿ں کے ٹانکوں میں دیگر اجزاءکے علاوہ جو چیز لازماً شامل ہو تی ہے وہ خنزیر کی چربی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام میں ہر اس حلال جانور کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے جسے حلال طریقے سے اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا ہو ‘لہٰذا مغرب یورپ یا امریکہ ، اسرائیل میں ذبح ہونےوالے حلال جانوروں کے بارے میں ہم پراعتماد نہیں کہ آیا وہ اسلامی طریقے کے مطابق ذبح کئے گئے ہیں یا نہیں۔ لہٰذ ا ہم ان اشیاءکا استعمال نہیں کر سکتے۔ گزشتہ ماہ کے دوران مسلم ممالک میں یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریکوں میں تعاون کا بڑھتا ہوا رجحان دیکھا گیا۔ بہت سی امریکی یا اسرائیلی کمپنیوں یا اسرائیل کے حامیوں کو بھی اسلامی ممالک میں پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا جن میں "KFC، Pizza Hut، Burger King کے علاوہ Coca-Cola، Pepsi، Vicks اور Puma” جیسے برانڈز شامل ہیں۔مصر اور اردن میں اسرائیلی مغربی برانڈز کا کافی اثر و رسوخ رہا ہے، لیکن غزہ جنگ اور بائیکاٹ مہم کے ذریعے جن کمپنیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا ان کے اسرائیل نواز موقف تھے یا ان کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی یا سرمایہ کاری کے تعلقات تھے۔تمام اسلامی ممالک میں جیسے جیسے یہ مہم پھیل گئی بائیکاٹ کا مطالبہ خاص طور پر سوشل میڈیا پر بھی شدت پکڑنے لگا۔ یوں درجنوں اسرائیلی یا اس سے وابستہ کاروبار اور مصنوعات کو بلیک لسٹ کر دیا گیا اور صارفین کو ان ممالک میں مقامی متبادل تلاش کرنے کی ترغیب دی گئی۔ مصر میں امریکی KFC ریسٹورنٹ چین کی شاخوں نے 7 اکتوبر کے بعد بے مثال خاموشی کا تجربہ کیا ہے۔ یہ میکڈونلڈز کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ریسٹورنٹ چین ہے جس کی مختلف ممالک میں دسمبر 2019 تک 22,000 سے زیادہ شاخیں ہیں۔ کویت سٹی میں "اسٹاربکس، میکڈونلڈز اور کے ایف سی” برانڈز کے سات اسرائیلی-امریکی اسٹورز اپنے سابقہ گاہکوں سے تقریباً خالی ہوگئے ہیں ۔یہاں روایتی طریقوں سے سڑکوں اور شاہراہوں پر بل بورڈ لگا کر اسرائیل کے بائیکاٹ کی تحریک میں شامل ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔ مراکش کے دارالحکومت رباط میں سٹاربکس برانچ کے ایک کارکن نے اعداد و شمار کا حوالہ دئے بغیر میڈیا کو بتایا کہ اس ہفتے صارفین کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے ۔ فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی ترکی میں فلسطینی کارکنوں اور حامیوں کی سیاسی اور ثقافتی تقریب کا حصہ بن چکی ہے۔ موجودہ جنگ میں ترکی کے کئی ریستورانوں میں کوکا کولا اور نیسلے کی مصنوعات کو ان کے مینو سے ہٹا دیا گیا ہے۔انڈونیشیا میں "اسلامی علماءکی سپریم تنظیم” نے غزہ پر اسرائیل کے وسیع اور شدید حملوں کے آغاز کے بعد ایک فتویٰ جاری کیا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ انڈونیشیا کے مسلمانوں کو فلسطینی عوام کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت کرنی چاہیے اور اسرائیل کی "جارحیت” کی حمایت کرنا حرام ہے۔تنظیم نے مسلم کمیونٹی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسے کاروباروں کے ساتھ خرید و فروخت جیسے لین دین سے حتی الامکان پرہیز کریں جو اسرائیل کی جارحیت اور صیہونی سرگرمیوں کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔انڈونیشیا کی طرح ملائیشیا میں KFC اور McDonald’s کی برانچوں کو ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں صارفین کی تعداد میں 20 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بائیکاٹ کرنے والوں کو امید ہے کہ اقتصادی اثرات کے علاوہ یہ پابندیاں فلسطینیوں کیخلاف اسرائیلی نسل کشی کی روک تھام کے حوالے سے عالمی برادری کی آگاہی اور بروقت کارروائی میں نمایاں اثر ڈالیں گی، اسی وجہ سے اسلامی ممالک کے علاوہ دنیا بھر میں فلسطین کے حامی بھی اسرائیلی اشیا اور مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک میں شامل ہو گئے ہیں۔
یہودی مصنوعات و اشیائے خورونوش کا بائیکاٹ

