آئی پی پیز کمپنیاں خود حکومت کا اپنے آپ اور ڈائریکٹ اِن ڈائریکٹ چند کمپنیوں کو چھوڑ کر اپنے آپ سے ہی معاہدہ ہے ۔ حکومت چاہے تو ان آئی پی پیز معاہدوں کو ایک ہی جنبش قلم سے ختم کرسکتی ہے اور رہی چند ایک باقی کمپنیوں کی تو اُن سے بات کر سکتی ہے مگر کرے گی نہیں اس لیے کہ وہ اور اِن کے منظورنظر لوگ کیسے چاہیںگے کہ یہ آئی پی پیزکمپنیاں ختم ہوں جنہیں بنانے اور لانے کیلئے انہوں نے برسوں محنت کی ، اِن آئی پی پیزکو ختم کرنا اِن کا اپنے پیروں پرکلہاڑی مارنے جیسا ہے جو کہ یہ چاہ کر بھی نہیں کر سکتے ہیں۔اس لیے کہ یہ آئی پی پیزمعاہدے انہوں نے کئے ہی اپنے لیے ہیںجن میں سیاستدان ،کاروباری لوگ اور جرنیل تک شامل ہیں ۔آخر ان معاہدوں سے کیسے دستبردار ہو سکتے ہیں۔ ان آئی پی پیزکمپنیوں اور ظالمانہ طویل معاہدوں سے جان نہیں چھڑوا سکتے ہیں۔وجہ اور کچھ بھی نہیں ہے کہ ان حکومتی شخصیات اور منظور نظر افراد کی جان ہی ان آئی پی پیزطوطے میں ہے۔اس کی گردن مروڑی گئی تو یہ سب لوگ، ان کی اولادیں اور زرخرید غلام و ملازم اپنی موت آپ مرجائیںگے۔حکومت بھی ایک بزنس ہے جسے یہ سب لوگ مل کر پیسے کے بل بوتے پر چلاتے ہیں اوراپنا آپ قائم رکھتے ہیں سے چھٹکارا اُن کو جان کے لالے ڈال دیتا ہے۔آئی پی پیزتو ان کی ہمیشگی روٹی روزی کا سامان ہے جن سے اِن اور اِن کی اولادوں اور شتہ داروں کا مستقبل اورروزگار جڑا ہو اہے ۔ یہ بڑے چالاک ،مکار اور سیاہ کار لوگ ہیں ۔اِن آئی پی پیزپر آئیں بائیں شائیں کریںگے مگر اسے ختم کرنے کی طرف نہیں جائیں گے ۔کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرط کی وجہ سے ہم مجبور ، بجلی مہنگی کررہے ہیں اور ریٹ کم نہیں کرسکتے جیسی باتیں بھی ایک جھوٹ کا پلندہ ہیں دراصل بات صرف اتنی سی ہے کہ یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ آئی پی پیزختم ہوں یا بجلی ریٹ کم ہو یا اِن آئی پی پیزکا قبلہ درست کیا جائے ۔بھلا اپنی دکانداری کون خراب کرتاہے اوراچھی دکانداری کیسے چلاتے ہیں اِن حکومتی افراد سے بہترکون جان سکتا ہے ۔ آئی پی پیزکاروبار اس کی ایک مثال ہیںکہ مزے ہی مزے ، مال صرف آنا ہی ہے کام کریں یا نہ کریں۔ اِن کا بس چلے تو آئی پی پیزکا دائرہ کم کرنے کی بجائے اوربڑھا دیں ، لوٹ مار کا سلسلہ او ردراز کردیں ۔ عوام مرتی ہے تو مرے ،جائے بھاڑ میں ،اِن اور اِن کی اولادوں کے کام اور دھندے بس چلنے چاہئیں۔بڑھتے اور پھولتے رہیں ۔جب بھی بجلی کی بات ہوتی ہے یہ درمیان میں آئی ایم ایف کی شرطیں عوام کو دھوکا دینے کیلئے لے آتے ہیں۔ ان سے کہا جائے کہ آئی ایم ایف معاہدوں کے نکات بھی سامنے لائیے ۔ٰ دیکھیں کہ کہاں لکھا ہے کہ بجلی کے حوالے سے کیا کرنا ہے ۔ یقین کریں آئی ایم ایف کو آئی پی پیزاور بجلی معاملے پر ہم سے کوئی غرض نہیں ہے،نہ ہی اُن کی اس حوالے سے کوئی شرط ہے ۔ یہ سب باتیں حقیقت میں اشرافیہ کی گھڑی ہوئی باتیں ڈھکوسلے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ اگر آپ آئی ایم ایف کے ہاتھوں اتنے ہی مجبور ہیں تو ان کے پاس بار بارکیالینے جاتے ہیں ۔ آئی ایم ایف کی سختیاں صرف یہ ہوتی ہیں کہ اپنے کام میں بہتری لائیں ،اپنی عوام اورملک کو مضبوط کریں ، تعلیم و صحت کی سہولتیں بہتر کریں، اپنے ملکی سسٹم میں اور ٹیکس نظام میں بہتری لائیں اور کچھ نہیں۔آئی ایم ایف نے کبھی بھی نہیں کہا کہ اپنے غریب ماردو اور سرمایہ دار بچالو ۔ دراصل ہمارے ملک میں جاگیر دار،سرمایہ دار اوروڈیروں کی حکومت ہے جو غریب کو نچوڑ رہا ہے اور اپنے آپ کو نواز رہا ہے۔یہ وہ خون چوس مافیا ہے جنہوں نے آئی پی پیزبنائی اور اب ہمدردی اور تعاون کے نام پر غریب کو جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں اور جینا محال کررکھا ہے۔آئی پی پیزتو انہوں نے انسانی کھوپڑیوں اور لاشوں پر تعمیر کررکھی ہے ،بھلا اسے ہٹانے کیلئے کیسے کام کر سکتے ہیں۔ یہ آئی پی پیزکے بل بوتے پر روز جیتے اور مسکراتے ہیں اورغریب رعایا روزمرتی اور بجھے دل سے پھرتی ہے۔ان آئی پی پیزکمپنیوں کے خاتمے سے پاکستان کا تو کچھ نقصان نہ ہوگامگر ان کو لگانے والے کہیں کے نہیں رہیں گے اور سارارونا بس اسی بات کا ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے ، یہ ان لوگوں کے مفادات میں نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ آئی پی پیز ملک کی کم اِن مسلط شدہ ٹولے کی زیادہ ضرورت ہے ۔کیسی باتیں کرتے ہیں کہ جماعت اسلامی والے و دیگر لوگ ، کیا یہ نہیں جانتے ہیں کہ یہ ملک اشرافیہ کیلئے بنایا گیا ہے ، عوام تو قربانی کے بکرے ہیں سوبنے ہوئے ہیں اور بنے رہیں گے۔آئی پی پیزکمپنیاں تو درحقیقت اِن اور اِن کی اولادوں کی روزی روٹی کا ذریعہ ہیں اور ان لوگوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں اپنے اپنے ہمنوا افراد او ررشتہ داروں کو نواز ڈالا اور آئی پی پیزکا مالک بنا کر کچھ کرو بھی نہ اور ارب پتی بنادیا ۔یہ مر تو سکتے ہیں مگر بجلی معاہدے ختم نہیں کر سکتے ہیں۔ ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ حکومت کو یہ بجلی معاہدے ختم کرنے کیلئے کوئی خاص چیلنجز درپیش نہیں ہیں ۔آئی پی پیزیہ خود ہے دوسرا اور کوئی نہیں ہے۔ اگرشادونادرکوئی ہے بھی تو سامنے بندہ کوئی اور پیچھے یہی لوگ ہیں ۔ افسوس کہ اِن حکمرانوں نے یہ ان آئی پی پیز لگوا کر اور طویل المدتی معاہدے کرکے پاکستانی عوام کا بھرکس نکالے انہیں گھپ اندھیرے میں ڈال دیا ہے جس میں سے نکلنا اب حکمرانوں کی مرضی و منشاءپر ہی رہ گیاہے اور یہ سفر اِن احباب نے آج سے شروع نہیں کیا ہے بلکہ برسوں اس کی آبیاری کی ہے ۔تبھی تو وہ آج بزنس مین بن گئے ہیں اور عوام بھکاری نظر آتی ہے۔یہ صاحب ثروت کہلواتے ہیں اور عوام صاحب ضرورت بنی نظر آتی ہے۔ ان حکمرانوں نے ملک کے ہر شعبے کو برباد کر ڈالا ہے ۔تعلیم و صحت سے مسلسل کھلواڑ چل رہی ہے ۔تعلیم کا کیا حال ہے اور کیسے سکولوں کو پرائیویٹ افراد اور پیف کے تحت کرکے برباد کررہے ہیں سبھی جانتے ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ تعلیمی ترقی ہے تو یہ اس کی بھول ہے ۔ یہ حکومت کا دراصل تعلیم سے جان چھڑوانا ہے ۔ آنے والے وقتوں میں پتہ چلے گا کہ یہ موجودہ حکومت بجلی ،تعلیم اور صحت کے نام پر اداروں میں کیا کیا بم فٹ کرکے گئی ہے کہ جس کا بجلی بحران کے ازالہ نہ ہونے کی طرح تعلیم و صحت میں بھی ازالہ نہ ہوگا۔ یہ بیرونی انویسٹمنٹ کے خواب بھی عوام کو دئیے گئے دھوکے ہوتے ہیں جو وہ مسلسل ملکی تعمیر و ترقی کے نام پر دیکھتے رہتے ہیں اور 1947سے لے کر اب تک یہ سن سن کر ان کے کان پک گئے ہیں مگر ملکی تعمیر و ترقی کو حقیقی طور پر اپنے پاس دیکھتے نہیں ہیں۔ افسوس قوم پر ڈرامہ گیر لٹیروں کا راج ہے اور عوام پر ان کے کئے کے نتائج بجلیاں بن کر گرتے ہیں ۔ کبھی بیرونی انویسٹمنٹ کی تصویریں دیکھ کر دھوکہ کھاتے ہیں تو کبھی بجلی آئی رے کے نام پر مہنگے پاور پلانٹ لگا اورلگوا کر لوٹ لیتے ہیں اور پاکستا ن کی مسلسل قسمت کھوٹی کررہے ہیں اور آئی ایم ایف کا برابر محتاج بنارکھا ہے۔ عوام کی قسمت میں ہر دم لٹنا ہی ہے اور چین و سکون ذرا سابھی نہیں ہے اور حکمران ہیں کہ سب کچھ خراب کئے ، عوام کا جینا حرام کئے ملک کی نازک و پتلی حالت میں بھی سب اچھا کی رپورٹ کی راگنیاں گاتے مسلسل چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔