اس وقت ملک میں سیاست دانوں کی آپس کی لڑائیاں عروج پہ ہیں اور ملک قحظ الرجال کے لپیٹ میں ہے اور ملک کے نظام کو بچوں کے کھیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور سیاست اور الیکشن مذاق بن گئے ہیںہمارے سیاست دان فیل ہوگئے ہیں باریاں بدل بدل کر آتے ہیںاور گزشتہ ستتر برس سے یہ تماشا لگایا ہوا ہے۔ جو ایک قومی سانحہ اور المیہ ہے ۔ ہم اس پہ فخر کرتے ہیں کہ بھٹو کو پھانسی کے چالیس سال بعد انصاف ملااور یہ تسلیم کیا گیا کہ بھٹو کو شفاف ٹرائل کا موقع نہیں ملا اوراس کے ذمہ دار صرف عدلیہ نہیں دیگر ادارے اور ہمارے سیاست دان بھی ہیں جنہوں نے بھٹو کے خلاف نو پارٹیو نے ملکرپاکستان قومی اتحاد کو منظم کیا جس کو تحریک نظام مصطفی کا عنوان دیا اور جنرل ضیاءالحق کو موقع دیا گیا کہ وہ مارشل لاءنافذ کرے اور جب ملک میں مارشل لاءنافذ ہوا اور بھٹو کو پھانسی دی گئی توپاکستان قومی اتحاد والوں نے حلوہ وغیرہ تقسیم کر کے تتر بتر ہوگئے اور تحریک نظام مصطفی کے نعرے دھرے کے دھرے رہ گئے۔بنگلہ دیش بننے کے سانحہ سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا مینڈیٹ کو نظر انداز کیا اس کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوا ۔آج کبھی ہم نے نہیں دیکھا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں مل بیٹھ کر عوام اور قوم کے بارے لائیحہ عمل طے کیا ہوں سب کے درمیان انا کی جنگ ہمیشہ جاری رہتی ہے اور یہ سب ملک میں قیادت کے فقدان کے نتائج ہیں اور ملک کے سیاسی نظام کو بازیچہ اطفال بنا دیا گیا ہے اور سیاسی میدان کا درجہ حرارت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے اور سیاست دان آپس میں لڑ رہے ہیں، قومی مفاد کو بھی داﺅ پر لگا دیا ہے یہاں تک کہ اداروں کی ساکھ بھی مجروح ہو رہی ہے جو کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ نظام وہی ہے مگر اقتدار کے حوالے سے ایک پارٹی کی جگہ دوسری کئی پارٹیوں نے اس کی جگہ سنبھال لی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن جمہوریت کا حسن ہے مگر اس وقت جو اپوزیشن موجود ہےسوشل میڈیا پہ اس کا خوب چرچا ہے۔ قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت باہر ہوچکی ہے اور کئی جماعتوں کا مجموعہ بر سر اقتدار ہے جن کو فارم سینتالیس کے حکمرانوں کا نام دیا جاتا ہے۔ وزیر خزانہ کو ہائی لینڈسے در آمد کیا گیا ہے جن کو وزیر خزانہ بننے کے بعد قومی شناختی کارڈ بنا کر دیا جاےئگا ۔ پاکستانی عوام کو یہ نہیں پتہ کہ یہ کون ہے جسے قومی خزانے بیٹھا یا جائیگا اور وہ آئی ایم ایف سے ڈیل کریگا ۔ یہ صرف آج کا سانحہ نہیں اس سے قبل ایک وزیر اعظم معین قریشی کو بھی در آمد کیا گیا تھا جسے وزیر اعظم بننے کے بعد شناختی کارڈ بنا کر دے دیا گیا تھا۔الیکشن کمیشن والوں کو ملک کے غریب عوام کے ٹیکس سے تنخواہیں دی جاتی ہیں اور ان کا کام ملک میں پاک صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے مگر گزشتہ دو برس میں سب سے ذیادہ ڈرامے الیکشن کمیشن نے کئے ہیںاور ووٹروں کیلئے مشکلات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ باقی دھاندلی کیسی ہوئی اس کے چرچے تو روزانہ ملکی اور عالمی میڈیا پر ہوتے رھتے ہیں مگر ذاتی طور پر ہمیں بھی ووٹ کے حق سے محروم ہونا پڑا اور اور آٹھ فروری کو سارادن حلقہ این اے 46میں پولنگ سٹیشن تلاش کرتے رہے۔چھبیس جنوری تراسی سو پہ جو پولنگ سٹیشن بتایا گیا تھا وہ موجود ہی نہیں تھااس مقام پہ اور موبائل سروس بند ہونے کی وجہ سے سارا دن تلاش کے باوجود پولنگ سٹیشن نہ ملا۔ الیکشن کے دوسرے دن معلوم ہوا کہ الیکشن سے قبل ہی انتیس جنوری کو ہمارا ووٹ کسی اور پولنگ سٹیشن میں منتقل کیا گیا اور ہمیں ٹیکنیکل طریقے سے ووٹ کے سے محروم کر دیا گیا۔جس کی شکایت آٹھ فروری کے شام ہی چیف الیکشن کمشنر کو کر دی گئی مگر ابھی تک جواب نہیں ملا۔ ابھی سے حکومت کے پاﺅ ڈگمگا رہے ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انجام گلستان کیا ہوگا؟ ۔ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ تبدیلی اقتدار عوامی مفاد میں ہے یا اس تبدیلی سے صورتِ حال پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر ہوچکی ہے،؟سابقہ حکومت پرمہنگائی کا الزام تھامگر موجودہ حکومت گزشتہ پی ڈی ایم ٹو کا نام دیا جاتا ہے نے توآئی ایم ایف کے مطالبے پر پیٹرول، ڈیزل ،گیس اور مٹی کے تیل کی قیمتیں بڑھا کر تاریخ ررقم کر دی ہے جس سے مہنگائی کی ایک نئی لہر پیدا ہوگئی ہے اور یہ مہنگائی قومی بحران کو بھی جنم دے سکتا ہے۔ عوام یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ اگر سابقہ حکومت نے اگر مہنگائی کی بارودی سرنگیں بچھائی تھیں تو کیاموجودہ حکومت عوام پر مہنگائی کی کارپٹ بمباری نہیں کر رہی ہے؟۔ اس سیاسی تبدیلی نے سوالات کا کا در کھولا ہے کہ پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلیاں پاکستانی عوام کرتے ہیں یا امریکہ؟ اور کیا امریکہ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی معاملات پر اثرانداز ہوتا ہے یاصرف امریکہ مخالف کارڈ استعمال کیا جا رہا ہے؟ اور کیا یہ حقیقت ہے کہ امریکہ اپنی ناپسندیدہ حکومتوں کو ہٹاکر اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں کو مسندِ اقتدار پر بٹھاتا ہے؟۔بھر حال یہ ریکارڈ پر ہے کہ جب 1956ءمیں مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے نہر سوئز کو نیشنلائز کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سے بین الاقوامی تنازعہ پیدا ہوا تو اس وقت کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی سے جب پوچھا گیا کہ مسلمان ملک کے بجائے آپ نے برطانیہ کا ساتھ کیوں دیاتو انھوں نے تاریخی جوابی جملے ادا کئے کہ ”مسلم ممالک سے اتحاد کا ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟ ہ تو صفر جمع صفر برابر صفر والی بات ہے“۔ بھر حال موجودہ سیاسی ڈھانچے میں جھوٹ اور سچ میں تمیز اور کھوٹے اور کھرے کی پہچان مشکل ہے ستتربرس گزرنے کے باوجود عوام کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر ہمارا ملکی مفاد ہے کیا ہے؟ گزشتہ پی پی پی دور اور نون لیگ کے ادوارمیں مفاہمت اور ملکی مفاد کے نام پہ اس ملک کا جو حشر کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔جھوٹ کون ہے اور سچا کون ہے؟ اور کھوٹے اور کھرے میں فرق کیا ہے عوام کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہے۔ ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اس وقت جس نازک دور سے گزر رہا ہے ۔ یہاں کی تاریخ ہے کہ لوگ حکومت یہاں کرتے ہیں اور مراعات اور پیسہ یہاں کماتے ہیں اور اقتدار کے بعد مال و دولت اور پیسہ باہر منتقل کر دیتے ہیں اور خود بھی باہر منتقل ہو جاتے ہیں ۔ در اصل ملک کو نزاکت تک پہنچانے والے یہ عناصر ہیں کیا پتہ یہ لوگ ملک باہر منتقل ہو کر ملک کے قومی راز بھی بیچ دیتے ہو؟ ہر پاکستانی کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ، لوگ مر رہے ہیں تو مرتے رہیں ، دشمن کے ہاتھ ہماری شہ رگ تک پہنچ جاتے ہیں تو پہنچتے رہیں۔ سیاست کے اس کھیل کو جمہوریت کا عنوان دیا گیا ہے۔ عوام کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر ہمارا ملکی مفاد ہے کیا ہے؟ ۔ قتدار اور حکومت کو چند افراد تک محدود رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ، کمزورکی آواز دبائی جارہی ہے ، اور غریب کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی ہوتی ہے ، کرسی اقتدار پر بیٹھے لوگوں کو یہ منظور نہیں ہے کہ ان کے طریقہ کار پر کوئی سوال اٹھاسکے ، ان سے کوئی سوال کرنے کی جرات کرسکے ان کے نظام کے خلاف آواز بلند کرسکے ۔غریبوں اور امیروں کے درمیان خط امیتاز قائم ہے، علاقائی اور نسلی عصبیت کو قابل فخر بنایا گیا ہے۔ دیکھا جائے تویہ نظام شرمناک بھی ہے اور انسانیت سوزبھی ، یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں غریبوں کیلئے کوئی مقام نہیں ہوتا ہے، اس نظام میں حکومت اور اقتدار میں عوام کی شراکت نہیں ہوتی سب سرمایہ کا کھیل ہوتا ہے البتہ عوام کے نام پر پروپگنڈہ بہت ہوتا ہے ، دولت پر چند افراد کا قبضہ ہوتا ہے، مورثی سیاست کی وجہ سے شرافت اور عزت کا کاپی رائٹ مخصوص افراد کو دیا جاتا ہے ، چند مخصوص افراد کے سوا کسی اور انسان کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ شرافت اور عزت دار کہلا سکے یا اس طرح کی کسی بھی خصوصیت سے وہ قریب ہوسکے، اسی بنا پر چند افراد کو پروٹوکول دیا جاتا ہے۔حالانکہ انسانیت ، شرافت ، دولت ، اقتدار اور حکومت کسی کی جاگیر نہیں ہے ،یہ چیزیں صرف چند انسان کیلئے مخصوص نہیں ہے ، پوری انسانیت لائق احترام ہے ،تمام بنی آدم کو عزت واحترام سے جینے کا حق ہے۔ مگر یہاں تو حق کا ملنا دور کی بات یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر ہمارا حق ہے کیا؟ ۔ سیاست دان اقتدار کیلئے آپس میں لڑ رہے ہیں ملک کو تماشا بنا دیا ہے اور عوام اس انتظار میں ہیں کہ آخر سیاست دانوں کی لڑائی کب ختم ہوگی اور ملک سینتالیس اور پینتالیس کے چکر سے کب نکلے گا؟۔
آخر سیاست دانوں کی لڑائیاں کب ختم ہوگی؟

