آزاد کشمیر کی سیاست گزشتہ چند برسوں سے جس انتشار، بے یقینی اور طاقت کے کھیل کا شکار ہے، وہ اس خطے کی تاریخ میں شاید پہلی بار اتنی کھل کر سامنے آئی ہے۔ اس خطے میں منعقد ہونے والے2021میں انتخابات نے یہ امید پیدا کی تھی کہ اب ایک ایسی حکومت قائم ہوگی جو فیصلہ سازی میں بااختیار ہوگی اور عوامی مسائل کو ترجیح دے گی۔ مگر بدقسمتی سے انتخابی نتائج کے بعد میں سیاسی انجینئرنگ، ذاتی مفادات، گروہی کھینچا تانی اور طاقت کے مراکز کی مداخلت نے اس امید کو کمزور کر دیا۔ وزارتِ عظمی کا انتخاب ہی اتنا متنازعہ بنا دیا گیا کہ پورا نظام ابتدا ہی سے عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔ 2022میں جب عمران خان کی حکومت مرکز میں ختم ہوئی تو آزاد کشمیر میں بھی سیاسی فضا تیزی سے تبدیل ہوئی۔ قیوم نیازی کو ہٹا کر سردار تنویر الیاس کو وزارتِ عظمی کی کرسی پر بٹھا دیا گیا مگر ان کا اقتدار بھی زیادہ دیر تک نہیں چل سکا۔ ایک غیر معمولی عدالتی فیصلے کے ذریعے انہیں اقتدار سے الگ کردیا گیا جیسے کوئی پانچ گریڈ کا ملازم معطل کردیا جاتا ہے اور پھر ایک نئے پی ٹی آئی فارورڈ گروپ کے ذریعے پی ٹی آئی کے ہی منتخب رکن انوارالحق کو وزیراعظم بنایا گیا۔ تمام جماعتوں کی طرف سے انہیں ملنے والے ووٹ نے یہ حقیقت مزید واضح کر دی کہ آزاد کشمیر کی اسمبلی میں سیاسی وابستگی سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ کس وقت کس کا حکم چل رہا ہے۔ انوارالحق تقریبا دو سال حکمران رہے مگر ان کی حکومت بھی متنازعہ رہی اور عوامی مسائل جوں کے توں پڑے رہے ان کی کرسی ایسے ہی چھن گی ۔بعد ازاں وفاق میں ہونے والی سیاسی ڈیلوں نے آزاد کشمیر کی سیاست کی بساط دوبارہ بچھا دی۔ پھر آزاد کشمیر میں بھی وزارتِ عظمی کے لیے نئے کھلاڑی سامنے آ گئے۔ پارٹی صدر چوہدری یاسین، سپیکر لطیف اکبر اور سردار یعقوب جیسے سینئر رہنما امیدوار تھے، مگر فیصلہ ایک نوجوان، فیصل راٹھور کے حق میں ہوا۔ یہ انتخاب بھی اس بات کا ثبوت تھا کہ یہاں قابلیت، تجربہ اور سینئارٹی کا کوئی معیار نہیں رہا، بس فیصلہ وہاں ہوتا ہے جہاں سیاسی ہوائیں چلتی ہیں۔ حقیقی ڈرامہ تو تب ہوا جب اسی اسمبلی نے جس نے کچھ عرصہ پہلے انوارالحق پر اعتماد کا ووٹ دیا تھا، اب ان ہی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کر دی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن نے نئے وزیراعظم فیصل راٹھور کو خوشی خوشی اعتماد کا ووٹ بھی دیا اور تقریریں ایسے کیں جیسے لوہے کے چنے چبا رہے ہیں پھر 53کے ایوان میں محض9نشستوں کیساتھ اپوزیشن لیڈر کی کرسی بھی حاصل کرلی۔ ایسا سیاسی تضاد دنیا کی کسی مہذب پارلیمانی تاریخ میں شاید ہی ملے۔ ایک ہی وقت میں حکومت کے ساتھ بھی کھڑے ہونا اور اگلے دن اپوزیشن کا تاج بھی پہن لینا سیاسی سمجھ داری نہیں، بلکہ اصولوں، شفاف سیاست اور عوامی اعتماد کی توہین ہے۔ریاست کی سواد اعظم جماعت مسلم کانفرنس کے کردار اور سیاست کا زکر نہ ہی کروں تو اچھا ہے مجھ میں صرف ایک ہی خامی ہے کہ لوگوں کی اکثریت طاقتوروں کیساتھ ہوتی ہے اور میں اپنی خصلت میں کمزور کیساتھ ہی کھڑا رہتا ہوں کیا بیان کروں ہم جیسے لوگوں پر سردار عبدالقیوم خان مرحوم کی سیاست اور صحبت کا ابھی تک اثر ہے لیکن اگر گھر کو آگ لگے گھر کے چراغ سے تو پھر کیا کہا جائے ۔مسلم کانفرنس کا زکر اتنا ہی کافی ہے ان کا ووٹ کبھی یہاں، کبھی وہاں وہ بھی صرف ایک اور ایک سیٹ-افسوس کہ میں بیرسٹر سلطان محمود کا زیادہ زکر اس موقع پر نہیں کرسکتا کیوں کہ وہ بہت بیمار ہیں ان کا زکر نہ بھی کروں تو انکا کردار سب کے سامنے ہے ۔عوام سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ لیڈر اور جماعتیں اصل میں عوام کی نمائندہ ہیں یا صرف اپنی بقا کی جنگ لڑتی ہوئی سیاسی کمپنیاں؟ان تمام سیاسی تماشوں نے آزاد کشمیر کے سیاسی وقار کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ قانون کمزور ہوا، اسمبلی ایک فورم کے بجائے ایک بازار لگنے لگی، اور عوام کا اعتماد اس سیاسی طبقے سے اٹھتا جا رہا ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا یہ موقف کہ یہاں کے سیاستدان صرف اقتدار کیلئے سیاست کرتے ہیں، عوام کیلئے نہیں آج ایک تلخ حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے کھڑا ہے۔اس دوران عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے پر بھی آزاد کشمیر کی قیادت مکمل خاموش رہی۔حال ہی میں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے بھارت کے دورے کے دوران کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیا اور بھارتی بیانیے کی تائید کرتے ہوئے پہلگام حملے کی مذمت کی لیکن آزاد کشمیر کے کسی رہنما نے آواز اٹھانا تو دور، پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو باضابطہ طور پر متوجہ کرنے کی ہمت بھی نہ کی۔ کوئی اسمبلی میں مزمتی قرارداد ہی پیش کردیتے اسلام آباد میں روس کے سفارتخانے میں جاکر ایک یادداشت ہی دے آتے یہ وہ ہمارے بھائی لوگ لیڈر ہیں جو انتخابی جلسوں میں کشمیر کی آزادی کا راگ الاپتے ہیں، مگر عالمی سطح پر کشمیر کے نقصان پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔اسی دوران پاکستان میں ایک نئی بحث بھی چھڑ چکی ہے مجوزہ 28ویں آئینی ترمیم کی۔ اطلاعات کے مطابق اس ترمیم میں نئے صوبے بنانے کے فارمولے بھی زیرِ غور ہیں۔ اگر حکومتِ پاکستان واقعی نئے صوبے بنانے کا فیصلہ کرتی ہے تو میں ذاتی طور پر ان صوبوں کی حمایت کرتا ہوں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا آزاد کشمیر پر کیا اثر پڑے گا؟ دوسری طرف آزاد کشمیر کے عوام حقیقی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ مہنگائی نے زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ نوجوان بیروزگاری سے پریشان ہیں، جبکہ سرکاری اداروں میں کھپت بھی نہیں میرٹ کا قتلِ عام روز کا معمول ہے۔صحت کا نظام بکھرا ہوا ہے، اسپتالوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ تعلیم کا معیار گر رہا ہے، اسکول عمارتوں، کتابوں، اساتذہ اور جدید سہولیات سے محروم ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، سیاحت کا بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں ، پانی اور بجلی کے منصوبوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ عوام تک نہیں پہنچتا۔ بجلی کے بلات میں کمی تو ہوئی مگر بجلی غائب ہے۔ عوام احتجاج کرتے ہیں مگر اسمبلی کے ایوان میں بیٹھے سیاست دان ان کی آواز سننے کے بجائے اپنی سیاسی گیم میں مگن رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں تبدیلی صرف وزارتِ عظمی کی سطح پر آتی ہے، عوام کی زندگی میں نہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بہت ہی خراب ہے جو بہت بڑا مسئلہ ہے جب تک سیاست اصولوں پر نہ ہو، جب تک عوام کو مرکزیت نہ دی جائے، جب تک اسمبلی آزادانہ فیصلے نہ کرے اور جب تک سیاست دان ذاتی مفادات کی بجائے قومی مفاد کو ترجیح نہ دیں تب تک نہ سیاست مضبوط ہوگی اور نہ کشمیری عوام کے مسائل ختم ہوں گے۔آخر میں جماعت اسلامی کا بھی زکر کردوں یہ جماعت اسلامی جانے کیوں اور کیسے گم ہوگئی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام میں اس کی پزیرائی اس لئے نہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ حکومت کے ساتھ ہے یا اپوزیشن یا عوام کے ساتھ ہے ۔جاتے جاتے کچھ زکر گلگت بلتستان کا ہوجائے اگر اٹھائیس ویں ترمیم پیپلز پارٹی نے پاس کروانے میں اپنا کردار اچھے بچہ بن کر کیا تو سودے بازی میں آئیندہ گلگت بلتستان میں بھی حکومت پیپلزپارٹی کو مل سکتی ہے۔
آزادکشمیر کی اقتداری سیاست کی حالت زار

