Site icon Daily Pakistan

آوازیں جو دبائی نہ جا سکیں

پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں بہت سے مسائل وقتی طور پر سامنے آتے ہیں اور پھر دب جاتے ہیں، لیکن بلوچستان کا معاملہ ایسا نہیں۔ یہاں کی محرومیاں، لاپتہ افراد کے کیسز اور حکومتی رویہ بار بار ایک نئے طوفان کو جنم دیتا ہے۔ مارچ 2025 میں ایک واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کے بعد گرفتاریاں ہوئیں، کارکنان اور خواتین رہنما پابندِ سلاسل کی گئیں، اور اسی کے نتیجے میں بلوچستان بھر میں ایک احتجاجی لہر اٹھی جو کراچی تک جا پہنچی۔یہ احتجاج صرف ایک واقعے کا ردعمل نہیں تھا بلکہ برسوں کی محرومیوں اور شکایات کا اظہار تھا۔حکومت کی روایت رہی ہے کہ بلوچستان کی ہر آواز کو سیکیورٹی مسئلہ قرار دے کر خاموش کرایا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسائل دبانے سے ختم ہو جاتے ہیں؟ بلوچستان کے اپنے حکمران بھی اس صورتِ حال کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔ دہائیوں سے اقتدار میں رہنے والے سردار اور سیاسی جماعتیں وفاق کو الزام تو دیتی رہیں مگر اپنے صوبے کے عوام کے لیے کبھی عملی اقدامات نہیں کر سکیں۔ تعلیم، صحت اور روزگار کے منصوبے محض کاغذوں میں رہے، جبکہ بجٹ کا بڑا حصہ کرپشن اور طاقتور خاندانوں کی جیبوں میں چلا گیا۔ صوبائی اسمبلی ہر بار عوامی مسائل پر آواز بلند کرنے کے بجائے وفاق کے آگے ڈھیر ہو جاتی ہے، کیونکہ اقتدار کا تسلسل، مراعات اور وزارتوں کی لالچ ان کی پہلی ترجیح ہے۔ بلوچستان کے حکمران جانتے ہیں کہ اگر وہ عوام کے حق میں مضبوطی سے کھڑے ہوئے تو ان کے اقتدار کی بساط الٹ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے عوام کے بجائے ہمیشہ اسلام آباد کی خوشنودی کو ترجیح دیتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے بلوچستان کے حکمرانوں نے اپنے عوام کو محرومی اور احتجاج کے سوا کچھ نہیں دیا۔ بلوچستان کی زمین وسائل سے مالا مال ہے مگر یہاں کے لوگ پینے کے پانی اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں۔ لاکھوں نوجوان بے روزگار ہیں، اور جو سوال اٹھاتے ہیں وہ یا تو جیلوں میں ڈال دیے جاتے ہیں یا ان کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے۔یہ احتجاج اسی محرومی کی بازگشت ہے۔ کوئٹہ، تربت اور گوادر میں نوجوانوں اور خواتین کا باہر نکلنا کوئی معمولی بات نہیں۔ جب کوئی ماں سڑکوں پر دھرنا دیتی ہے تو یہ محض سیاست نہیں ہوتی، ایک انسانی المیہ ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے حکمران ان آوازوں کو سننے کے بجائے طاقت کے ذریعے دبانے کو ہی حل سمجھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ فاصلے مزید بڑھتے ہیں اور دلوں کی دیواریں اونچی ہو جاتی ہیں۔یہ مسئلہ اب محض بلوچستان کا نہیں رہا۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں بھی یہ احتجاج پہنچ چکا ہے۔ وہاں کی سڑکوں پر بلوچ خاندانوں کا نکلنا پورے ملک کو ایک پیغام دیتا ہے کہ بلوچستان کے زخم چھپائے نہیں جا سکتے۔ جب آواز دبائی جاتی ہے تو وہ اور بلند ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ مسئلہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور بین الاقوامی میڈیا کی نظر میں بھی آ گیا ہے۔یہ لمحہ پاکستان کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔ کیا ہم بلوچستان کو ہمیشہ طاقت کے زور پر چلانے کی پالیسی پر قائم رہیں گے یا پھر سنجیدگی سے اس کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گے؟ یہ درست ہے کہ سیکیورٹی خدشات اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن کیا ہر احتجاج کو غداری اور دشمن کا ایجنڈا قرار دینا درست ہے؟ اگر یہی رویہ جاری رہا تو پاکستان کی وحدت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔حل مشکل نہیں۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم اور مقامی لوگوں کی شمولیت کے بغیر کوئی ترقی پائیدار نہیں ہو سکتی۔بلوچ نوجوانوں کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ یہ ملک ان کا بھی ہے، ان کی بات سنی جائے گی اور ان کے سوالوں کا جواب دیا جائے گا۔بلوچستان کے احتجاج ہمیں ایک تلخ حقیقت دکھا رہے ہیں: آوازیں دبائی جا سکتی ہیں، مگر ختم نہیں کی جا سکتیں۔ اگر ریاست نے اب بھی کان نہ دھرا تو یہ احتجاج کل ایک بڑے طوفان میں بدل سکتا ہے۔ اور اگر دانشمندی دکھائی گئی تو یہی آوازیں ملک کی طاقت بن سکتی ہیں۔ فیصلہ ہمارے حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے، مگر وقت زیادہ نہیں۔

Exit mobile version