بھلا ہو الیکشن کمیشن کا جنہوں نے 8 فروری کو عام انتخابات کا اعلان کر دیا ماشااللہ انتخابات میں حصہ لینے والوں کا جمعہ بازار لگ گیا جدھر سے بھی گزریں اشتہار آویزاں ہیں نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کی نظریں ان پر اٹھ ہی جاتی ہیں شکلیں تو اللہ تعالی نے بنائی ہیں خوبصورت یا واجبی لیکن اشتہار پر چھپی ہوئی تصویر دل کشی کا نمونہ ہے اللہ ان سب کی عمر دراز فرمائے سبھی امیدواروں کے دلوں میں عوام کی خدمت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ابل رہا ہے اسکا ثبوت وہ جلسے جلوس ہیں جو متعلقہ علاقے کے رہائشیوں کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں خطیب اپنا منشور کم بیان کرتا ہے مدمقابل کی خامیاں زیادہ بیان کرتا ہے بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندے ایک دوسرے کی ماضی میں کی گئی لوٹ مار کے قصے گوش گزار کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں ان کی تقریریں سن کر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ خود تو گنگا نہائے ہوئے ہیں اور مدمقابل اس صدی کا سب سے بڑا دھوکے باز ہے جس نےطرح طرح سے عوامی دولت کو لوٹا ہو اس فعل کی بڑی وجہ احتساب کا بروقت نہ ہونا ہے سیاست ایک انڈسٹری کا درجہ اختیار کر چکی ہے لگانے والے کو ملتا ہے اور اتنا ملتا ہے کہ اسکی چار پشتیں ٹھاٹھ سے چار دن کی زندگی گزار لیں پھر تو اندھیری رات نے انہیں اپنی آغوش میں اک دن سمیٹ ہی لینا ہے دیکھا جائے گا جو ہوگاعلاقے کے ووٹ دہندگان کی بھی موجیں لگی ہوئی ہیں کھانا پینا چل رہا ہے اور سردی میں چائے بھی مل جاتی ہے جو اس وقت ستر روپے کی اک پیالی ہے عوام اگرچہ پہلے سے بہت باشعور ہو چکے ہیں لیکن مفت کے کھانے پینے میں وہ بے شعورے ہو جاتے ہیں ووٹ دینے والے کبھی سیاسی جماعت کے منشور کو نہیں پڑھتے صرف جلسوں میں ہونے والی سیاسی تقریر سے مستفیض ہو کر آ جاتے ہیں سیاسی آدمی کبھی سچ نہیں بولتا آدھا جھوٹ اور آدھا مصلحتوں بھرا بیان ہوتاہے جو کچھ منشور میں لکھا ہوتا ہے اسمیں سے شاید ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوتا عوامی مشکلوں کو بیان کی حد تک تو زیربحث لاتے ہیں لیکن ان مشکلات سے نجات دلوانے کی تدبیریں گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے عمل میں نہیں لائی جاتی انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد عوام بھاڑ میں چلے جاتے ہیں اور نمائندہ بہار میں۔ عزت اور دولت گھر کی باندی بن جاتے ہیں ووٹ دینے والے جب جائز ضرورت کے لیے ان کے دولت خانے پر حاضر ہوتے ہیں تو صاحب کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ مسائل کو حل کرنے کی حامی بھریں یا پھر ٹال دیں بڑا گھر بڑی گاڑی سٹیٹس سمبل ہیں ہر نمائندہ عوامی دولت کو ابا جی کی دولت کا ورثہ سمجھ کر سمیٹتا ہے جسکے پاس نئی سوزوکی گاڑی خریدنے کی سکت نہیں ہوتی کچھ ہی عرصہ میں وہ نئی پجارو لیے گھوم رہا ہوتا ہے اسمبلی میں کسی موضوع پر صرف تقریر ہی کرنا ہوتی ہے وہ کر لی جاتی ہے اسکا چاہے اثر ہو نہ ہو عوام کے مسائل حل ہوں یا نہ ہوں اس بات کی ان کی ذمہ داری نہیں ہوتی صرف خطاب فرمانا ہوتا ہے باقی اللہ جانے اور اللہ کے کام تقریر سے ان کا فرض پورا ہو جاتا ہے ہر چیز تو انسان کے بس میں نہیں ہوتی آجکل ہر دسیاسی جماعت اپنے جلسوں میں عوامی مسائل کو ایسے بیان کرتی ہے جیسے ان تقریر کرنے والوں سے زیادہ عوامی غمخوار کوئی نہیں ۔ پاکستان کو معرض وجود میں آئے پچھترسال گزر گئے نہ تو معاشی حالات بہتر ہوئیں نہ ہی دیگر متعدد مشکلات حل ہو سکیں گاوں سے شہر تک کی متعدد سڑکیں کچی ہیں وہ آج تک پکی نہ ہو سکیں بیشتر گاوں میں طبی سہولیات موجود نہیں تعلیم کا انتظا م نہیں سفائی ستھرائی نہیں بچوں اور بڑوں کو وبائی امراض سے محفوظ رکھنے کی سہولتیں موجود نہیں کچی آبادیاں ہر شہر میں موجود ہیں کیا وہ لوگ جو ان ایریاز میں آباد ہیں انسان نہیں ۔ نہ پینے کا صاف پانی انہیں میسر ہے نہ ہی گیس اور بجلی کی سہولتیں ہیںوہ اب بھی قبل از مسیح میں رہتے ہیں اسلام آباد جیسے ماڈرن شہر میں صفائی ستھرائی کا کام کرنے والوں کے لئے رہائش کا معیار اور دیگر ضروری سہولتوں کافقدان ہے ان کی ماہانہ آمدنی اتنی قلیل ہے کہ وہ دو وقت کا کھانا بھی بڑی مشکل سے پورا کرتے ہیں یہی حالات دیگر شعبوں میں کام کرنے والوں کے ہیں عام آدمی اس وقت دووقت کی روٹی پوری کرنے میں بری طرح ناکام ہے مختلف اداروں کے ماہانہ واجبات ادا کرنا اس بھی زیادہ مشکل امر بن چکا ہے ۔ حال ہی میں کابینہ نے 146 لائف سیونگ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا دیکھا جائے تو اس وقت کوئی بھی چیز قیمت کے لحاظ سے دسترس میں نہیں رہی۔ اب ایسا وقت آچکا ہے کہ جان مال اور عزت محفوظ نہیں رہے بلوچستان اور کے پی کے میں دہشتگردی کے واقعات ہو رہے ہیں آئے دن نہتے اور معصوم لوگ مارے جا رہے ہیں اگر فوج انکا بھرپور جواب نہ دے تو یہ حالات بے قابو ہو جانے میں کسر نہ چھوڑیں فوجی جوان اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ملک کی سرحدوں اور عوام کے تحفظ کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں وہ دن رات جاگتے ہیں تو ہم سکون میں ہیں 8 فروری کو انتخابات کے بعد جو بھی سیاسی جماعت حکومت بنائے اسے اپنے منشور کی مقابقت میں کام کرنا ہوگا بھڑکیں مارنے کا وقت گزر چکا اب تمام ایم این ایز اور اسمبلی کے ممبران کو ذمہ داری سے عوامی بہتری اور خوشحالی کے لئے کام کرنا ہوگا آبادی چاہے گاوں کی ہو یا شہر میں رہنے والے لوگوں کی ہو سب کے لیے ترقی اور خوشحالی کے مواقع ہونے چاہیں بیروزگاری کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے ملک کی آبادی میںہر سال بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اس جانب بھی حکومت کو توجہ مبزول کرنا ہوگی وسائل کم ہونے کیصورت میں آبادی اضافے کی متحمل نہیں ہو سکتی زراعت تعلیم صحت انڈسٹری روزگارکے مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت کو خصوصی توجہ مبزول کرنا ہوگی سرکاری دفاتر کے اخراجات کو کم کرنے کی ضرورت ہے قومی اور صوبائی نمائندوںکی مراعات پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے ملک کے مسائل اس وقت الجھے ہوئے دھاگے کی طرح ہیں جو بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت یا دیگر جماعتوں کے تعاون سے حکومت بنائے اسپر یہ فرض ہے کہ وہ عوامی خدمت کے جزبے کےساتھ ان مسائل کو حل کرنےاور مزید آسانیوں کی طرف لائے بلکہ ہر شعبے میں ترقی نظر بھی آنی چاہیے ہر سال بجٹ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ورلڈ بینک آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرض لینا پڑتا ہے اور اس وقت ملک پر قرض تہہ در تہہ ہوچکا ہے اور اصل ادھار کی رقم ادا کرنا مشکل ترین کام ہے جب آمدنی کا بیشتر حصہ ان شعبے میں نکل جائے تو پھر ترقیاتی کاموں کے لیے فائنینس کم ہو جاتا ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود مختلف ترقیاتی کاموں کے لئے رقم ریلیز کی جاتی ہے اس کا بیشتر حصہ عوامی نمایندے نگل جاتے ہیں اور ڈکار مارنے کی زحمت بھی نہیں کرتے ان کے ہاتھ میں ایسی صفائی ہوتی ہے کہ پکڑائی قریب تک نہیں پھٹکتی الیکشن پر خرچ کیا ہوا پیسہ انہوں نے سود سمیت پورا بھی تو کرنا ہوتا ہے پھر پانچ سال کے بعد ایسا موقع ملے گا کون جیتا ہے تری ذلف کے سر ہونے تک ۔ ملک کی موجودہ صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتخاب میں کامیاب صوبائی اور قومی ممبران کو تھالی میں کھانے کے بجائے پیالی پر اکتفا کرنا ہوگا اللہ کرے آنے والی حکومت اپنی مدت پوی کرے ۔ محب وطن ہوتے ہوئے اور ایمانداری خلوص ذمہ داری سے معاشی اور معاشرتی محاذوں پر دلجمعی سے کام کرے تاکہ پاکستان کے عوام دل سے زندہ باد کے نعرے لگائیں صرف چاول کی پلیٹ کھا کر ایک مگ چائے پی کر مجبورا زندہ باد نہ کہیں سیاسی جماعتیں جو بڑے دعووں سے منشور پیش کر رہی ہیں انہیں حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے کے بعد جماعت کے منشور کو عملی جامہ پہنانا ہوگا ورنہ زندہ باداور مرد ہ باد کہنے میں کچھ دیر نہیں لگتی اور ان میں فاصلہ بہت ہی کم ہے یہ دھیان میں رہے۔
آپ کھائیں تھالی میں
