Site icon Daily Pakistan

امریکہ پاکستان تعلقات ۔ایک پیچیدہ داستان

امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی پیچیدہ داستان اور داخلی کمزوریوں کا ملبہ آج ہمارے قومی شعور اور مستقبل پر گہرا اثر ڈال رہا ہے۔ ایک طرف عالمی قوتیں اپنی ترجیحات اور مفادات کے مطابق پالیسی مرتب کرتی ہیں دوسری طرف ہم اپنے اندرونی خدوخال، نظریات اور عملداری کی ایسی کمزوریاں رکھتے ہیں جو بیرونی دباؤ میں مزید سنگین صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ بیرونی دباؤ کو معمولی سمجھنا یا مکمل طور پر رد کرنا دونوں ہی یکسر غلط فہمیاں ہیں۔ اصل خطرہ وہ ہے جو اندر سے ہماری عوامی اور آئینی طاقت کو کمزور کر کے ہمیں خود اپنے ہاتھوں کمزور بنا دیتا ہے۔ اس صورت حال کا ادراک اور عملی اصلاح ہی ہمیں مستقل استحکام کی طرف لے جا سکتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ طاقتور ممالک اپنی خارجہ پالیسی میں مفاد کو بالادست رکھتے ہیں۔ امریکہ بھی اس اصول سے مستثنیٰ نہیں۔ عالمی سطح پر اس کے طرزِ عمل سے یہ بات واضح ہے کہ وہ جہاں اپنے مفادات تسلیم کرے گا وہاں حمایت کرے گااور جہاں مفاد و تضاد ہوگا وہاں مداخلت یا دباؤ کی کیفیت اختیار کر لے گا۔ پاکستان میں بھی امریکی اثر و رسوخ کے نشانات دیرینہ ہیں ۔ سفارتی دباو، معاشی پیکیجز، سیکورٹی یا سیاسی معاملات میں مشورے اور بعض اوقات بُری طرح گھس آنے والی مداخلتیں،اس کو محض سازشی نظریات کے دائرے میں رکھ کر رد کرنا دانشمندی نہیں، حقیقت کا ادراک کرنا اور اس کے مطابق حکمت عملی بنانا زیادہ ضروری ہے البتہ بیرونی دباؤ جتنا بھی شدید ہو، سب سے بڑا خطرہ اندر سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ جب ہمارے اپنے لیڈر اور ادارے بیرونی وعدوں، دھمکیوں یا لالچوں میں آسانی سے متاثر ہو جاتے ہیں تو ملک کی خودمختاری کمزور پڑتی ہے ۔ کچھ سیاسی و معاشی مفادات اس قدر غالب آجاتے ہیں کہ قومی مفاد پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ وہ کمزوری ہے جو بیرونی قوتوں کو کارِغنیمت سمجھ کر اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کرنے کا موقع دیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے ہی بنائے ہوئے سیاسی ڈھانچوں، آئین اور قوانین کو زائل کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں اور پھر سراپا حسرت و کھوکھلے تصورات میں ڈوب جاتے ہیں کہ ملک کا بڑا نقصان کس نے کیا۔آئین، قانون، عدالتی آزادی اور انسانی حقوق وہ ستون ہیں جن پر ایک قوم کی بقاء منحصر ہوتی ہے۔ پاکستان میں اکثر یہ بات دیکھی گئی ہے کہ جب بھی قومی مفاد یا طاقتور حلقوں کا مفاد خلط ہوتا ہے تو آئین و قانون کو عبوری یا وقتی مفادات کے تحت نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔عملی طور پر یہی تشویش ناک رجحان ہے جس نے عوام کا اعتماد کم کیا ہے اور ملک میں بے یقینی اور انتشار کو جنم دیا ہے ۔جب عدلیہ، پارلیمان اور انتظامی ادارے اپنی آزادی اور شفافیت کھو دیتے ہیںتو سیاسی فیصلے ذاتی یا گروہی مفادات کے تابع ہو جاتے ہیں ۔اس کا نتیجہ معاشی عدم استحکام، سرمایہ کاری میں کمی اور عوامی عدم اطمینان کی صورت میں نکلتا ہے۔عوام کی بد گمانی بھی کسی حد تک منطقی ہے جب آئین و قانون کی پاسداری کمزور پڑتی ہے تو شہری خود انصاف تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا حالات سے بیزار ہو کر خود ہی راستے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وہ رفتار ہے جو ملک کو اندر سے کھوکھلا کرتی ہے۔ اس کی روک تھام کے لئے لازمی ہے کہ شفافیت کو فروغ دیا جائے، کرپشن کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ہو اور عدالتی عمل تیز اورموثر بنایا جائے تاکہ عوام کو انصاف تک بروقت رسائی حاصل ہو۔ملکی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہمیں اپنی خارجہ و اندرونی پالیسیاں متوازن اور حقیقت پسندانہ بنانی ہوں گی۔ بیرونی تعلقات میں احتیاط اور حکمت عملی درکار ہے مگر ساتھ ہی ساتھ ہمیں داخلی استحکام کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ مضبوط اور آزاد ادارے، صحتمند جمہوری روایات، شفاف اقتصادی پالیسیز اور ایک باخبر، باشعور عوامی مکالمہ جس میں ہر طبقہ اپنی شراکت ادا کرے۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ طاقتور ممالک کے ساتھ تعلقات میں خودداری اسی وقت قائم رہ سکتی ہے جب ملک خود اقتصادی اور سیاسی طور پر مضبوط ہو۔ اس کے بغیر ہر دباؤ ہمارے لیے ایک نئی کمزوری بن جاتا ہے۔یہاں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ماضی کی غلطیوں کا الزام صرف بیرونی طاقتوں پر ڈال دینا آسان ہے مگر وہی غلطیاں اندرونی کمزوریوں کے بغیر ممکن نہ ہوتیں۔ قرضوں پربے تحاشہ انحصار، معاشی پالیسیوں میں غیرمسلسل تبدیلیاں، ادارہ جاتی کمزوریاں اور کرپشن یہ سب عوامل خارجی دباؤ کے سامنے ہماری مزاحمت کو کم کرتے ہیں اس لیے اصلاحات کا سفر اندر سے شروع ہونا چاہیے۔ تعلیمی معیار میں بہتری، باصلاحیت بیوروکریسی، عدالتی اصلاحات اور قانون سازی میں شفافیت وہ اقدامات ہیں جو طویل مدتی نتائج دے سکتے ہیں۔سوشل اور سیاسی شعور کو بیدار کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ عوامی مکالمہ، پریس کی آزادی اور فکری تنقید ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد ہیں۔ جب میڈیا اور سول سوسائٹی آزاد اور ذمہ دار ہوتی ہیں تو وہ حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی خامیوں کی نشاندہی کر کے اصلاح کا دباؤ پیدا کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ نوجوان نسل کو معیاری تعلیم اور وسائل فراہم کرنا بھی قومی طاقت کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ نوجوان ہی مستقبل کی قیادت کریں گے اور اگر وہ بیدار، مضبوط اور نظریاتی طور پر ہو تو خارجی و داخلی دونوں خطرات کا مقابلہ بہتر طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔اقتصادی خودمختاری حاصل کرنے کے لیے متنوع معیشت کی تشکیل ضروری ہے۔ کسی ایک بیرونی قوت یا چند ممالک پر انحصار خطرناک ہے۔ زراعت، صنعت، ٹیکنالوجی اور سروِس سیکٹر کو یکساں توجہ دے کر ملازمتیں پیدا کی جائیں، سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول بنایا جائے اور برآمدات میں اضافہ کرکے بیرونی قرضوں کے بوجھ کو کم کیا جائے۔ اس کا نفاذ صرف اقتصادی ماہرین کا کام نہیں، یہ سیاسی مستقل مزاجی، ادارہ جاتی استحکام اور واضح ابتدائی پالیسیوں کا تقاضا کرتا ہے۔آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دشمنی یا دوستی کی فطرت بدلتی رہتی ہے مگر قومی طاقت اور وقار وہ بنیاد ہے جو ہر صورتِ حال میں ہمیں مستقل مزاجی اور خودداری عطا کرتی ہے۔ امریکہ یا کسی بھی دوسری طاقت کے ساتھ تعلقات میں ہوشیاری ضروری ہے مگر سب سے بڑھ کر داخلی کمزوریوں کی شناخت اور ان کے فوری ازالے کی ضرورت واضح ہے۔ اگر ہم اپنی آئینی اور قانونی اقدار کو مضبوط کریں، اداروں کو آزاد اور شفاف بنائیں اور معاشی خود کفالت کی طرف مرحلہ وار سفر کریں تو نہ صرف بیرونی دباؤ کا سامنا آسان ہوگا بلکہ ہم عالمی سطح پر بھی بہتر موقف اختیار کر سکیں گے۔یہ سب کچھ آسان نہیں مگر ناگزیر ہے۔ آئین، قانون اور جمہوری عمل کو نافذالعمل بنانا، احتساب اور شفافیت کو رائج کرنا، عوامی شعور بیدار کرنا اور اقتصادی تنوع کو فروغ دینایہ وہ اہداف ہیں جن کے حصول کے بغیر پاکستان کا روشن مستقبل ممکن نہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم خود کو دوبارہ تعمیر کریں، طاقتور اداروں کے ساتھ، باوقار قیادت کے ساتھ اور ایک بیدار عوام کے ساتھ۔ اس کے سوا کوئی شارٹ کٹ یا عارضی حل ملک کو حقیقی استحکام اور وقار نہیں دے سکتاہے۔

Exit mobile version