یہ موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر ہے یا ہمارے اعمال کا نتیجہ یا پھر ذمہ داروں کی پالیسیوں منصوبوں کا اثر ہے کہ ہم موسموں کے اثرات کا شکار ہیں پچھلی کئی دہائیوں کے مقابلے میں اس مرتبہ موسم گرما بڑا ظالم ثابت ہوا ہے درجہ حرارت تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا وطن عزیز میں اتنا گرم موسم کبھی نہیں رہا جتنا اس بار ہے ہمارے سابقہ موسمی حالات کے مطابق 15 ستمبر کے بعد گرمی اپنا اثر کم کرنا شروع کر دیا کرتی تھی اور15اکتوبر کے بعد رات کو گرمی کا اثر کم ہوتے ہوئے موسم سرما کو چارج دینے کیلئے تیار ہوتی تھی مگر اس مرتبہ توموسموں کا رویہ بھی انسانوں جیسا ہوتا نظر آرہا ہے گرمی لاکھ کوششوں کے باوجود موسم سرما کو چارج دینے پر آمادہ ہی نہیں لگ رہی ۔بابو سر ٹاپ سے لیکر تقریباً تمام شمالی علاقہ جات میں ہلکی برف باری اور کوئٹہ کی ٹھنڈی ہوا ئیں بھی میدانی علاقوں میں گرمی کے اثر کو کم نہیں کر سکی ہیں اور لنڈا بازار کی رونقیں بھی ماند ہیں۔ نہ گرمی کو عوامی خواہشات کا پتہ چل رہا ہے اور نہ سردی کو کنٹرول مل رہا ہے البتہ سردی رات کے اندھیروں میں اپنی ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ گرمی کو بھگانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ناکام ہے ۔اوپر سے بارشیں بھی خاموش تماشائی کی طرح گرمی اور سردی کے درمیان اقتدار حاصل کرنے کی جنگ کا تماشہ دیکھ رہی ہیں اور نقصان بیچارے عوام کو ہو رہا ہے لیکن کیا کریں کہ گرمی اور سردی کی ایک دوسرے سے اقتدار لینے کی جنگ بھی ہمارے انسانی رویوں کی طرح ہو چکی ہے ۔گرمی کب تک ایکسٹینشن لیتی رہے گی اسکا انحصار بارشوں پر ہے لیکن محکمہ موسمیات بھی تا حال بارشوں کی آمد پر کوئی پیشین گوئی کرنے سے قاصر ہے ۔موسم میں آتی تبدیلیوں کا اثر محض ہمارے ملک تک ہی محدود نہیں بہت سے دیگر ممالک بھی اس کا شکار ہیں ۔اس مرتبہ موسم گرما میں بارشوں اور بھارت کی آبی جارحیت نے سیلاب کی صورت میں وطن عزیز میں وہ تباہی مچائی ہے کہ جس نے پچھلے تمام سیلابوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ ایسے ایسے شہر اور دیہات جہاں سے سیلاب کا تصور بھی نہیں تھا، اچانک کئی کئی فٹ پانی کی لپیٹ میں رہے اور سیلاب زدگان کا لاکھوں کروڑوں نہیں اربوں کھربوں روپے کا نقصان کرتے اپنی راہ میں آنے والی بستیاں پل سڑکیں آبادیاں اجاڑتے ہوئے بڑی بے خوفی سے آگے بڑھتا رہا اور کروڑوں کیوسک میٹھا پانی جو انسانی زندگی اور ترقی کے کام آ سکتا تھا، ہماری حکومتوں اور متعلقہ محکموں کی ناقص پلاننگ کی وجہ سے سمندر برد ہو گیا اور اب حکومتیں اور ادارے ان نقصانات کے تخمینے لگانے اور متاثرین کو مدد امداد دینے کے کاموں میں لگے ہیں۔ درخت ہمارے انسانوں اور ماحول کیلئے ہمیشہ فائدہ مند ہوتے ہیں لیکن ٹمبر مافیا اور دیگر طاقتوروں نے جس بے رحمی سے درخت کاٹے ہیں اور جنگلات کا صفایا کیا ہے ۔بذات خود ایک قومی المیہ ہے لیکن وہ جنہیں ان پر کنٹرول کرنا تھا ان میں سے اکثر یا تو خود اس کام میں کسی نہ کسی طور ملوث رہے یا پھر اپنی ذمہ داریاں پورا نہ کر سکے اس طرح جنگلات کے اجڑنے سے موسموں کا عذاب بڑھنے لگا ہے۔ جب تک حکمران سیلابی علاقوں میں پانی ذخیرہ کرنے اور مختلف جگہوں پر چھوٹے بڑے ڈیم بنانے پر جنگی بنیادوں پر توجہ نہیں دیں گے اور جب تک ہم جنگلوں کے حجم میں اضافہ کرنے کو پہلی ترجیح نہ بنائیں گے تب تک ہر سال عام ادمی سیلابوں سے برباد ہوتا رہے گا اور گرمی کے درجہ حرارت میں اضافوں کی وجہ سے بے موت مارا جاتا رہے گا ایک عالمی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور خطہ کہ مختلف ممالک آئندہ سال موجودہ گرمی کے مقابلے میں زیادہ درجہ حرارت کا شکار ہو کر انسانی جانوں اور انسانی کاموں میں سخت نقصانات اٹھائیں گے۔یہ رپورٹ ہمارے حکمرانوں اور متعلقہ محکموں کے ذمہ داروں اور پالیسیاں مرتب کرنیوالے ہاتھوں اور دماغوں کیلئے ایک وارننگ ہے گرمی جس طرح جانے کا نام نہیں لے رہی بالکل اسی طرح ہماری سیاست بھی گرمی کے نقشے قدم پر چل رہی ہے اور نشانہ غریب آدمی بن رہا ہے ۔ آج کل میرے آبائی علاقے وزیرآباد جو کہ تحصیل سے ضلع کا درجہ اختیار کر چکا ہے میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے66میں ضمنی انتخابات کا مرحلہ عروج پر ہے ۔یہ حلقہ 2002میں تشکیل دیا گیا تھا اور تب یہ حلقہ این اے101گجرانوالہ کہلاتا تھا ۔2018کی نئی حلقہ بندی میں اسے این اے 79 گجرانوالہ کا نام ملا ۔وزیر آباد ضلع بنا تو اس حلقہ کو این اے 66 قرار دیا گیا ۔آخری مردم شماری کے مطابق اس حلقہ کی آبادی ساڑھے اٹھ سے نو لاکھ جبکہ رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد ساڑھے پانچ لاکھ کے قریب ہے جو شہری اور دیہی آبادیوں پر مشتمل ہے۔ کبھی یہ حلقہ مسلم لیگ کا گڑ ھ ہوتا تھا پھر پیپلز پارٹی کا قلعہ بنا۔ اس حلقہ کو یہ اعزاز رہا ہے کہ جو بھی یہاں سے منتخب ہوتا اسے کابینہ میں شامل کیا جاتا یا سپیکر بنتا۔اس مرتبہ مسلم لیگ نے سابق صدر پاکستان رفیق تارڑ کے پوتے اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کے بھائی نوجوان نوجوان پڑھے لکھے اور عوام دوست نوجوان بلال فاروق تارڑ کو حامد ناصر چٹھہ کے صاجزادے احمد چٹھہ کو دہشتگردی کی عدالت سے سزا ہونے پر خالی ہوئی تھی۔ بلال فاروق کا سیاسی مقدر ہے کہ لوگ خود انہیں ورکرز کنونشن میں بلا کر ان کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں، چیمہ چٹھہ خاندانوں کے گڑھ میں ایک تاڑ رکو جو عزت اور شہرت اور مقبولیت مل رہی ہے اپنی نصف صدی سے اوپر پھیلی صحافتی زندگی میں ایسا خوش نصیب امیدوار پہلے نہیں دیکھا، اسی مہینے میں ضمنی انتخاب ہے اور فیصلہ نوشتہ دیوار ہے۔
اور فیصلہ نوشتہ دیوار ہے

