Site icon Daily Pakistan

اہم معاشی اہداف کے حصول میں ناکامی

قومی اقتصادی کونسل نے آئندہ مالی سال کیلئے معاشی شرح نمو4.2 فیصد برآمدات کا ہدف 35ارب ڈالرز ترسیلات زر کا ہدف 39 ارب ڈالر اور درآمدات کا ہدف 65 ارب ڈالر مقرر کیا ہے بلوچستان میں این 25 کیلئے بجٹ میں کٹوتی کر دی گئی این 25 کیلئے 120 ارب کی بجائے 100 ارب روپے کا پیکیج منظور ہوا آئندہ مالی سال تعمیرات کی ترقی کا ہدف 3.8 فیصد، بجلی گیس واٹر سپلائی کا ہدف 3.5 فیصد خدمات کے شعبے کا 4 فیصد ہول سیل اور ریٹیل کا 3.9 فیصد مواصلات اور ٹرانسپورٹ گروتھ کا 3.4 فیصد ہوٹل اور غذائی ترقی کا 4.1 فیصد اطلاعات کے شعبے کا 5 فیصد انشورنس اور مالیات کا 5 فیصد ریئل سٹیٹ کا ہدف 4.2 فیصد حکومتی خدمات کی ترقی کا ہدف 3 فیصد تعلیمی شعبے کا 4.5 فیصد صحت اور سماجی ترقی کا 4 فیصد صنعتی ترقی کا 4.3 فیصد سرمایہ کاری کا 14.7 فیصد قومی بچتوں کا 14.3 فیصد مقرر کیا گیا ہے جبکہ وفاقی ترقیاتی بجٹ کے لئے ایک ہزار ارب روپے مختص کرنے کی منظوری بھی دی گئی ہے کونسل نے پنجاب حکومت کی درآمدی ٹریکٹرز پر ڈیوٹی میں ریلیف کی درخواست مسترد کردی سندھ حکومت نے زرعی آمدن پر ٹیکس کے نفاذ کو موخر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے باور کرایا کہ زرعی انکم ٹیکس سے زرعی پیداوار کم اور نومبر میں گند م درآمد کرنا پڑ سکتی ہے وزارت خزانہ کی ٹیم نے واضح کیا کہ زرعی آمدن پر ٹیکس کا فیصلہ عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے واپس نہیں ہوسکتا اور یکم جولائی سے چاروں صوبوں میں زرعی آمدن پر ٹیکس لاگو ہوگا وزیراعظم کا کہنا تھا ملک میں حالیہ معاشی استحکام وفاق اور صوبوں کی مشترکہ کاوشوں کی بدولت ممکن ہوا ملک معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہے زرعی شعبہ ملکی زر مبادلہ میں اضافے اور شرح نمو میں اضافے کیلئے مرکزی کردار ادا کرتا ہے زرعی پیداوار میں بتدریج اضافے کیلئے حکمت عملی تشکیل دی جا رہی ہے قومی اقتصادی کونسل کے منظور کردہ بجٹ اہداف معیشت کی موجودہ صورت حال سے مطابقت نہیں رکھتے ان اہداف کا رواں مالی سال کی معاشی کارگردگی کے ساتھ موازانہ کیا جائے تو غیر معمولی فرق سامنے آتا ہے مثال کے طور پر رواں مالی سال کے لئے شرح نمو کا ہدف3.6 فیصد مقرر کیا گیا تھاجبکہ رواں مالی سال کی پہلی تین تین سہ ماہیوں میں شرح نمو 2.68 فیصد رہی گزشتہ پانچ سالہ عرصے میں جی ڈی پی کی اوسط شرح نمو محض تین فیصد رہی ہے اور یہ پاکستان کی تاریخ کی کم ترین شرح نمو والا پنچ سالہ دور ہے بڑے معاشی شعبوں میں زراعت کا شعبہ سر فہرست ہے گزشتہ مالی سال ززاعت نے توقع سے بہتر کارگردگی کا مظاہرہ کیا تھا مگر رواں مالی سال وفاقی اور صوبائی سطح پر پالیسی فیصلوں اور حکومتی اقدامات کے نتیجے میں بڑی فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فیصد کی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے کپاس کی پیداوار میں 30.7 فیصد، مکئی میں 15.4 فیصد گنے کی پیداوار میں 3.9 فیصد چاول میں 1.4 فیصد اور گندم کی پیداوار میں 8.9 فیصد کمی ہوئی لائیو اسٹاک شعبے نے 4.7 فیصد کی شرح نمو برقرار رکھی جو گزشتہ سال 4.4 فیصد تھی یہ کارکردگی وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے ویکسینیشن مہمات بیماریوں پر قابو پانے اور نگرانی کے بہتر پروگراموں کا نتیجہ ہے۔تاہم اس شعبے کی کارکردگی کے باوجود اس کا مینوفیکچرنگ سیکٹر پر اثر زیادہ مثبت نہ ہو سکا جو اس سال صرف 1.3 فیصد کی شرح سے بڑھا جبکہ پچھلے سال یہ شرح 3 فیصد تھی اور ہدف 4.4 فیصد تھا صنعتی گروتھ کا4.3 فیصد ہدف بھی غیر حقیقی ہے ایسی صورت حال میں جب مینو فیکچرنگ1.9 فیصد کم ہوئی حکومت کے پاس ایسا کون سا تیر بہدف نسخہ موجود ہے جس سے ایک سال کے دوران ہماری صنعتیں گراوٹ سے نکل کر4.3 فیصد کی نمو حاصل کرلیں گی یہ ناممکن نہیں مگر اس ہدف کو ممکن بنانے کے لئے جو لوازامات درکار ہیں کیا ہم وہ مہیا کرپائیں گے؟ رواں مالی سال کے دوران بعض مثبت معاشی اعشارئیے بھی دیکھنے کو ملے جولائی سے اپریل ترسیلات زر میں 30.9 فیصد اضافہ ہوا اور کرنٹ اکانٹ بیلنس مثبت رہا مالیاتی خسارہ مزید کم ہو کر مجموعی قومی پیداوار کا 2.6 فیصد رہا جبکہ پرائمری بیلنس اضافے کے بعد مجموعی قومی پیداوار کا 3 فیصد رہا مجموعی قومی پیداوار کا حجم 114 ٹریلین روپے یا 411 ارب ڈالر ہو گیا شرح سود بتدریج کم ہوکر 22 فیصد سے 11 فیصد پر آگیا جولائی 2024 میں مہنگائی کی شرح11.1 فیصد تھی جو اپریل میں 0.8 فیصد اور مئی میں 3.2 فیصد ریکارڈ کی گئی رواں مالی سال کے دوران گزشتہ سال کے مقابلے میں 36 فیصد زائد ٹیکس وصولی کے باوجود گیارہ مہینوں میں مجموعی ٹیکس محصولات میں1027 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے 11 ہزار 240 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 10 ہزار 213 ارب روپے وصول ہوئے ہیں عالمی اداروں کی رپورٹوں میں پاکستانی معیشت کے درست سمت میں آگے بڑھنے کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ استحکام درحقیقت ایک ٹھہرا ہے جو وقتی کیونکہ ملک کی معاشی کمزوریوں اب بھی بر قرار رہیں جو مستقبل کے لئے تشویش کا باعث ہیں جب تک ان خرابیوں کو دور نہیں کیا جاتا حقیقی معاشی استحکام کی منزل حاصل نہیں کی جاسکتی اکتوبر 2025 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے قرض پروگرام منظوری کی دستاویز میں مشکل کاروباری ماحول سرمایہ کاری کی راہ میں درپیش رکاوٹیں اور متزلزل میکرو اکنامک پالیسیوں سمیت متعدد ایسی فالٹ لائنز کی نشاندہی کی گئی ہے جو پاکستانی معیشت کی اٹھان میں حائل ہیں وزیر خزانہ متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں پائیدار طریقے سے ترقی صرف برآمدات کے ذریعے ہی ممکن ہے مگر اس کے باوجود لارج سکیل مینو فیکچر کا شعبہ حکومتی بے اعتنائی کی داستان بنیا کر رہا ہے اگر معاشی نمو کی رفتار بڑھانی ہے تو پیدواری شعبے بالخصوص بڑی صنعتوں پر توجہ دینی ہوگی ملک میں زرعی اور صنعتی ترقی کی راہ میں توانائی کا بحران بالخصوص بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ایک بڑی رکاوٹ ہے کسی بھی ملک کی معاشی خوشحالی کی بنیاد توانائی کا شعبہ ہے جسے مضبوط کئے بغیر ترقی ممکن نہیں ہو سکتی اونچی عمارت کھڑی کرنے کے لیے مضبوط بنیادیں ناگزیر ہوتی ہیں اسی طرح معاشی ترقی کے اہداف توانائی کے شعبے میں خود کفیل ہوئے بغیر حاصل نہیں کئے جا سکتے گزشتہ چند برسوں میں پاکستان توانائی کے مستقل اور شدید بحران کا شکار رہا ہے اور اس کے حل کے لئے مختلف تجاویز منصوبے اور حکومتی اقدامات دیکھنے میں آئے ہیں اس سلسلے کو اگر ہم ملک کی تیزرفتار ترقی اور خصوصا سی پیک جیسے بڑے منصوبوں سے جوڑیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور حقیقی اور پائیدار ترقی کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا یہ بہت نازک وقت ہے جب پاکستان اپنے پڑوسی ممالک سے نہ صرف اقتصادی بلکہ تکنیکی اور دفاعی اعتبار سے بھی ایک بھرپور مقابلے میں شامل ہے اس تناظر کو اگر گلوبل وارمنگ کے عمل اور موسمیاتی تبدیلی سے جوڑدیں تو ہمیں یہ جائزہ لینا ہوگا کہ ہمارے وسائل کیا ہیں اور ہمیں ان میں سے کس کا انتخاب کرنا ہے اور یہ اس فیصلے کا انتہائی اہم وقت ہے توانائی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات اور بجلی وگیس کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے بغیر ترقی کے خواب شرمندہ تعبیر نہیں بنایا جا سکتا دنیا بھر میں اس وقت معاشی بے یقینی کے حالات ہیں ہر شعبہ بڑے پیمانے پر تبدیلیوں سے نبرد آزما ہے یہ تبدیلیاں عالمی معاشی نظام کی بھی تشکیل نو کر رہی ہیں ان حالات میں صرف وہی معیشت محفوط اور مربوط رہ سکتی ہے جو داخلی استحکام کی حامل ہو حکومت درست معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے داخلی معاشی استحکام کو اولین ترجیح بنائے تاکہ ملکی معیشت بیرونی جھٹکوں سے زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھا جاسکے ضرورت اس امر کی ہے کہ بجٹ میں بلند بانگ دعوں کے بجائے حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تاکہ مفروضہ اہداف مقرر کرنے اور پھر ان کے حصول میں ناکامی سے پیدا ہونیوالی کیفیت سے بچا جاسکے رواں مالی سال کے دوران جی ڈی پی گروتھ سمیت کئی اہم معاشی اہداف کے حصول میں حکومت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے معیشت کے اہداف کیوں حاصل نہیں ہوسکے اس کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کئے بغیر بجٹ میں بلند اہداف مقرر کردینا ہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔

Exit mobile version