Site icon Daily Pakistan

ایٹمی عدم پھیلاوکے معاہدے!

دنیا اس وقت جس دوراہے پر کھڑی ہے، وہاں طاقت کی سیاست اور دفاعی برتری کی دوڑ نے عالمی امن کو ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار کر دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ بیا، جس میں انہوں نے پاکستان، چین اور روس پر خفیہ ایٹمی تجربات کے الزامات لگائے اور خود امریکہ میں دوبارہ جوہری تجربات شروع کرنے کا عندیہ دیا، بین الاقوامی سطح پر گہرے خدشات اور اضطراب پیدا کر چکے ہیں۔ ان بیانات کے اثرات صرف سیاسی نہیںبلکہ نوعیت کے بھی ہیںجو ایٹمی عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدوں پر براہ راست اثر ڈال سکتے ہیں۔صدر ٹرمپ کا یہ کہنا کہ ،امریکہ کے پاس اتنا بڑا ایٹمی ذخیرہ ہے جو دنیا کو 150 مرتبہ تباہ کر سکتا ہے،نہ صرف سفارتی سطح پر غیر محتاط بیان ہے بلکہ یہ عالمی امن کے تصور پر ایک کاری ضرب بھی ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا ایٹمی ہتھیاروں میں کمی اور تخفیفِ اسلحہ کے معاہدوں پر عملدرآمد کی کوششوں میں مصروف ہے امریکہ جیسی بڑی طاقت کی طرف سے ایسے بیانات نہ صرف انتشار پیدا کرسکتے ہیں بلکہ دوسرے ممالک کو بھی اپنے ایٹمی پروگراموں کی رفتار تیز کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔دفاعی توازن کے اصول کے مطابق جب کوئی بڑی طاقت اپنی عسکری طاقت کے مظاہرے یا اضافے کی بات کرتی ہے تو اس کے اثرات خطے کے دوسرے ممالک پر بھی پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ ایٹمی تجربات دوبارہ شروع کرتا ہے تو روس، چین، بھارت، پاکستان اور ممکنہ طور پر شمالی کوریا بھی اپنے دفاعی منصوبوں پر نظرثانی کریں گے۔ اس عمل کے نتیجے میں دنیا ایک نئی ایٹمی دوڑ میں شامل ہوجائے گی۔چین نے امریکی الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کئی دہائیوں سے ایٹمی تجربات پر غیر رسمی پابندی پر کاربند ہے اور وہ عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدوں کی پاسداری کرتا رہے گا۔ چین کا یہ ردعمل بین الاقوامی برادری کے اس موقف کو تقویت دیتا ہے کہ طاقتور ممالک کو مثال قائم کرنی چاہیے، نہ کہ قوانین کی دھجیاں اڑانی چاہئیں۔ امریکہ جیسا ملک کھلے عام اپنے ایٹمی تجربات کی بحالی کی بات کرے گا تو وہ ان ممالک کے لیے جواز فراہم کر دے گا جو اپنے خفیہ جوہری منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔امریکہ کی ہمیشہ یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ خود کو ،عالمی شفافیت،اور اخلاقی ذمہ داری کا علمبردار ظاہر کرے۔ صدر ٹرمپ کے یہ بیانات اس تاثر کے برعکس ہیں۔ امریکہ دوبارہ تجربات شروع کرتا ہے تو یہ اس کی اپنی پالیسیوں سے انحراف ہو گا۔ ماضی میں امریکہ نے 1992 کے بعد کوئی باضابطہ ایٹمی تجربہ نہیں کیا، بلکہ کمپیوٹر سمولیشنز کے ذریعے اپنے ہتھیاروں کی کارکردگی جانچنے پر اکتفا کیا، صدرٹرمپ کے اعلان کے مطابق تجربات دوبارہ شروع ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ واشنگٹن نہ صرف CTBT کی روح کے خلاف جا رہا ہے بلکہ عالمی سفارتکاری میں اپنے اعتماد کو بھی کمزور کر رہا ہے۔ایٹمی ہتھیار کسی بھی قوم کے دفاعی نظام میں سب سے آخری حد ہوتے ہیں، جنہیں استعمال نہ کرنے کا عزم ہی دنیا کو امن میں رکھتا ہے۔ جب ایک عالمی طاقت ان ہتھیاروں کو دوبارہ آزمانے یا ان کی تعداد ظاہر کرنے لگتی ہے، تو یہ امن پسندی کے اصول کی بجائے ،اشتعال انگیزی کی راہ اختیار کر لیتی ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا کہ ،ہم واحد ملک نہیں رہ سکتے جو تجربات نہیں کرتا، دراصل اس ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جو طاقت کے توازن کو خوف کی بنیاد پر قائم رکھنا چاہتی ہے۔یہ بات درست ہے کہ ہر ملک اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کا حق رکھتا ہے، دفاعی توازن اور ہتھیاروں کی دوڑ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ دفاع کا مقصد تحفظ ہے، جبکہ دوڑ کا مقصد برتری۔یہی وہ نقطہ ہے جہاں عالمی قیادت کو سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ امریکہ ایٹمی تجربات بحال کرتا ہے تو وہ نہ صرف اپنے اخلاقی وقار کو مجروح کرے گا بلکہ دنیا کو دوبارہ اس سمت دھکیل دے گا جہاں ہر ملک اپنی بقاء کیلئے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنا ضروری سمجھنے لگے گا۔وینزویلا کے معاملے میں ٹرمپ کے متضاد بیانات، جن میں انہوں نے فوجی مداخلت کے امکان کو مسترد بھی نہیں کیا، اسی جارحانہ خارجہ پالیسی کا حصہ ہیں۔ ان کے بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ موجودہ امریکی قیادت عالمی تنازعات کو سفارتی مکالمے کے بجائے عسکری دباؤ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔یہی رویہ جاری رہا تو نہ صرف جنوبی امریکہ بلکہ ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ میں بھی امریکی پالیسیوں پر اعتماد مزید کم ہو جائے گا۔بین الاقوامی سطح پر اس وقت سب سے بڑی ضرورت اعتماد سازی اور عالمی معاہدوں کی پاسداری ہے۔ بڑی طاقتیں خود ہی ان معاہدوں کی خلاف ورزی کریں گی تو چھوٹے ممالک کیوں رکیں گے؟ دنیا کو ایک بار پھر یاد رکھنا چاہیے کہ سرد جنگ کے دنوں میں ایٹمی دوڑ نے دنیا کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا تھا۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی انسانیت کے لیے ایک ناقابلِ فراموش سبق ہے، جسے نظرانداز کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا۔صدرٹرمپ باربارکہہ چکے ہیں کہ ٹیرف کے ذریعے جنگیں رکوائیں جن میں پاک،بھارت جنگ کاتذکرہ ایک درجن سے زائدمرتبہ کرچکے ہیں،صدرٹرمپ سے سوال ہے کہ 150مرتبہ نہیں صرف ایک باردنیاتباہ ہوگئی توپھرامریکہ ٹیرف کس پرلگائے گا؟

Exit mobile version