ملک میں امن و امان اور معیشت کی بحالی کے لئے ایپکس کمیٹی بڑی محنت کے ساتھ کام کررہی ہے اور اس کی خواہش ہے کہ جلد از جلد ملکی معیشت سمیت دیگر معاملات کو بہتر بنایا جائے تاکہ ملک ایک بار پھر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکے ، اس مقصد کیلئے اپیکس کمیٹی کے اجلاس تواتر کے ساتھ منعقد ہورہے ہیں جس میں تمام سٹیک ہولڈرز شرکت کررہے ہیں اور نہ صرف گزشتہ فیصلوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں بلکہ آئندہ کیلئے بھی لائحہ عمل کی تیاری کام جاری ہے ، اسی حوالے سے گران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کی زیرِ صدارت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی)کی ایپکس کمیٹی کا چھٹا اجلاس جس میں ایس آئی ایف سی کے تحت ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے جاری مختلف اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر، عبوری وفاقی کابینہ کے اراکین، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی اور متعلقہ اعلی حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کو کونسل کی گزشتہ اجلاس کے بعد سے آج تک ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ اور کاروباری سہولیات کی فراہمی کیلئے اٹھائے گئے اقدامات پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس نے ملک میں سرمایہ کاری پر اثر انداز ہونے والے اقتصادی عناصر ،بشمول اصلاحاتی عمل میں تعطل اور شدید خسارے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کے عمل کا بھی جائزہ لیا۔ اجلاس میں عوام کے وسیع تر مفاد اور ملکی خزانے کو مزید نقصان سے بچانے کیلئے ان قومی ملکیت والی کمپنیوں کی نجکاری کے عمل کو تیز کرنے پر اتفاق ہوا۔ کمیٹی نے سرمایہ کاری کے مقامی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ سرمایہ کاری کے لئے طے شدہ اہداف کے حصول کیلئے اٹھائے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ وزیرِ اعظم نے مختلف وزارتوں کی طرف سے ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ اور ملکی معیشت کی بہتری کیلئے اقدامات کی پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ وزیرِاعظم نے وزارتوں کو (ہول آف دی گورنمنٹ )اپروچ کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے ایسے اقدامات جاری رکھ کر ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز پر قابو پانے کی اہمیت پر زور دیا۔ آرمی چیف نے ملکی معیشت کی بحالی و ترقی کیلئے پاک فوج کے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کے عزم کا اعادہ کیا۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز کا کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کا پیسا افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے استعمال ہوتا رہا، اوورسیز پاکستانیوں کا بھیجا گیا پیسا غیرقانونی طریقے سے باہر منتقل ہو رہا تھا، آنے والے دنوں میں پاکستان کی معیشت میں مزید استحکام آئےگا۔ان کا کہنا تھا کہ خلیجی ممالک سے آزاد تجارت اور سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا ہے، معاہدے کے تحت خلیجی ممالک سے پاکستان میں سرمایہ کاری آئےگی، 2009 میں خلیج تعاون کونسل کا فورم بنا جس میں 6 ممالک ہیں، 14سال بعد خلیج تعاون کونسل نے پہلی بار کسی ملک کے ساتھ تجارتی معاہدہ کیا ہے،
پاک افغان سرحد پر فائرنگ کا واقعہ
پاک افغان بارڈر پر اشتعا ل انگیزی کا سلسلہ مسلسل جاری ہے جس کا مقصد پاک افغان تعلقات کو خراب کرنا ہے ، گزشتہ 75سالوں میں پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اپنے مغربی ہمسایے کے ساتھ دوستانہ روابط کو مثالی بنا سکے ،چنانچہ اسی نظریئے کے تحت جب 1979میں سویت یونین نے افغانستان پر لشکر کشی کرتے ہوئے اپنی فوجیں داخل کرکے اس پر قبضہ کرلیا تھا تو پاکستان نے ہجرت مدینہ کی یاد تازہ کردی اور لاکھوں افغان مسلمانوں کیلئے بارڈر کھول دیئے مگر افغان حکومت اور عوام اس کا بدلہ مسلسل احسان فراموشی کی صورت میں دیتے چلے آرہے ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے ایسا نہیں جانے دیتے کہ پاکستان کے اندر بد آمنی، لاقانونیت یا تخریب کاری نہ کرسکے ، چنانچہ موجودہ نگران حکومت نے ملک سے افغانیوں سمیت تمام غیر ملکیوں کے انخلا کا پروگرام بنایا ہے جو ملک کے لئے بہت بہتر ہے ، گزشتہ روز انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر)کے مطابق بلوچستان میں افغان سرحد کے قریب چمن کراسنگ پر تعینات افغان سپاہیوں کی فائرنگ سے بچے سمیت 2 پاکستانی شہری شہید ہو گئے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق افغان سپاہیوں نے پاکستان سے افغانستان داخل ہونے والے پیدل افراد پر بلااشتعال اندھا دھند فائرنگ کی، زیرو لائن گیٹ پر فائرنگ سے شہید ہونے والوں میں 12 سال کا بچہ بھی شامل ہے جبکہ ایک بچہ زخمی ہوا۔آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستانی سکیورٹی فورسز نے انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا، پاکستانی سکیورٹی فورسز نے معصوم افراد کی موجودگی میں جوابی فائرنگ نہیں کی، فائرنگ نہ کرنے کا مقصد بڑے جانی نقصان سے بچنا تھا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق شہید افراد کی لاشیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز چمن منتقل کر دی گئیں، زخمی بچے کو فوری طور پر سکیورٹی فورسز نے منتقل کیا جس کا علاج جاری ہے۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ افغان حکام کو سپاہیوں کی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کے حوالے سے آگاہ کر دیا گیا، افغان حکام سے کہا گیا ہے کہ ذمہ داروں کو پاکستانی حکام کے حوالے کیا جائے، امید ہے افغان حکومت اپنے فوجیوں کو کنٹرول میں رکھے گی ۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق افغان فوجیوں کو ذمہ دارانہ رویہ اپنانے اور نظم و نسق برقرار رکھنے کا کہا جائے گا، اقدام کا مقصد مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنا ہے۔ پاکستان باہمی تعلقات کے فروغ سے امن، خوشحالی اور ترقی میں شراکت داری کے لیے پرعزم ہے، اس طرح کے ناخوشگوار واقعات کے تسلسل سے اس عزم کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد پر فائرنگ کا واقعہ قابل مذمت ہے ، افغان حکومت سے مطالبہ ہے کہ فائرنگ کرنے والے مجرم کو پاکستان کے حوالے کیا جائے تا کہ اس کیس کو پاکستان کی عدالت میں چلا کر کیفرکردارتک پہنچایا جاسکے ، پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں ، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم ہی جیتیں گے ۔
تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس اورڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے ایک مایوس کن سٹیٹمنٹ کے ذریعے سلیم مانڈوی والا کی زیرصدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس میں شرکا کو دوران بریفنگ بتایا کہ کوئی بینک ڈوب جائے یا ناکام ہوجائے تو 5 لاکھ سے اضافی جمع رقم کوتحفظ حاصل نہیں۔ اکانٹ میں موجود 5 لاکھ روپے سے زائد رقم محفوظ نہیں۔ یقینا کھاتا داروں کے لئے یہ انتہائی تشویش والی بات ہے کہ ان کا سرمایہ بنکوں میں بھی مکمل طور پر محفوظ نہیں ہے۔ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ 5 لاکھ روپے تک کے ڈپازٹس رکھنے والے کھاتہ داروں کی شرح 94 فیصد ہے، صرف 6 فیصد اکاو¿نٹ ہولڈرز کا بینک بیلنس 5 لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ 5لاکھ روپے تک کے اکاونٹ ہولڈرز کو ڈپازٹس پروٹیکشن کارپوریشن کے ذریعے ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈپازٹس پروٹیکشن کارپوریشن اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا ذیلی ادارہ ہے ۔اس سٹیٹمنٹ سے مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے جس سے لوگ پانچ لاکھ سے زائد اپنی جمع پونجی نکال کر گھروں میں رکھنے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔دوسری طرف عالمی بینک نے پاکستان میں ٹیکس وصولیوں کوناکافی قرار دیتے ہوئے ماہانہ50 ہزار سے کم آمدنی والوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کا مشورہ دے دیا ہے،عالمی بینک کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹیکس محاصل جی ڈی پی کا 11.6فیصد ہے جبکہ ترقی پزیر ملکوں کم از کم 15فیصد ہونی چاہئے، اصلاحات کی کئی کوششوں کے باوجود پاکستان میں ٹیکس محاصل کم ہیں، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھا کر محصولات میں اضافے کی عالمی بینک کی تجویز سے ملک بھر کے پیشہ ور طبقے میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، جو پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں۔اگر یہ تجویز قبول کر لی جاتی ہے تو یہ پہلے سے ہی بھاری ٹیکس ادا کرنے والے تنخواد دار طبقے پر اضافی مالی بوجھ کا سبب بنے گی۔عوام پہلے ہی تیل اور بجلی کے وبال سے تنگ آمد بجنگ آمد کی صورتحال سے دوچار ہیں ،ایسی کسی مزید کوشش سے حالات بد سے بد تر ہو جائیں گے۔